84878 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
ایک شخص جو مکان خرید رہا ہے، اسے اپنے مکان کی خریداری میں کچھ رقم کم پڑ رہی ہے، جس کی وجہ سے وہ کچھ مدت کے لیے کسی شخص سے ادھار لیتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ جب وہ اس مکان کا مکمل مالک بن جائے گا، تو وہ مکان کا کچھ حصہ (چند کمرے بمع کچن، واش روم، یا جائیداد کا کوئی دکان یا مکان کی کوئی منزل) وقتی طور پر قرض دینے والے کے حوالے کر دے گا۔ اس کے بدلے میں قرض دینے والے کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اس جگہ پر اپنے کرایہ دار کو بٹھا دے اور اس حصے کا کرایہ خود وصول کرے، بشرطیکہ یہ سب مالک کی رضامندی سے ہو۔
قرض دینے والے اور کرایہ دار کے درمیان معاہدے کی مدت گیارہ ماہ ہے، جو قابلِ توسیع ہے۔ توسیع کی صورت میں قرض دینے والے کو گیارہ ماہ کے بعد کرایہ دار بدلنے اور کسی دوسرے شخص کو کرایے پر دینے کا اختیار ہوگا۔
قرض دینے والا اپنے کرایہ دار سے خود کرایہ وصول کرے گا، جبکہ اس دوران وہ مالک کو مذکورہ حصے کا یا تو گیس/بجلی کا بل ادا کرے گا یا پھر کوئی مخصوص رقم، جیسے کہ دو یا تین ہزار روپے، کرایہ کے طور پر ادا کرے گا، ساتھ ہی گیس اور بجلی کے بل بھی ادا کرنے کا پابند ہوگا۔
لہٰذا، یہ معاملہ تین فریقین کے درمیان ہے: مالک مکان، قرض دینے والا، اور کرایہ دار۔ مذکورہ درخواست قرض دینے والے کی طرف سے ہے۔
سوال یہ ہے کہ: کیا اس طرح کے معاملات کرنا یا اس طریقے سے کرایہ وصول کرنا جائز ہے یا نہیں؟ یا پھر اس معاملے کو شرعی طور پر جائز طریقے سے کیسے طے کیا جا سکتا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسئولہ میں قرض دینے والے کو قرض کے بدلےمکان کا کچھ حصہ دینا اور اس پر کرایہ وصول کرنے کا اختیار دینا قرض پر مشروط نفع حاصل کرنے کے مترادف ہے، جو شرعاً جائز نہیں ہے۔ شریعت میں قرض کے بدلے کسی قسم کا اضافی نفع لینا سود کہلاتا ہے، جو حرام ہے، خواہ وہ نفع کسی بھی شکل میں ہو،لہذامذکورہ صورت جائزنہیں ہے اورسود کے
زمرے میں آتاہے۔
واضح رہے کہ مسئولہ صورت میں مالک کوجومعمولی کرایہ یابل دینے کی جو بات ہوئی ہے اس سے یہ معاملہ جائزنہیں ہوجاتا،اس لیے کہ یہ مثلی اجرت نہیں ہے،محض علامتی رقم اورسود کے حلال کرنے کا ناجائزحیلہ ہے، لہذا اس سے مذکورہ معاملہ جائزنہیں ہوا۔
تاہم اگر اس معاہدے کو شرکتِ متناقصہ کے اصولوں کے تحت طے کیا جائے تو یہ شرعاً جائز ہوسکتاہے۔
"شرکت" متناقصہ ایک ایسا مالیاتی معاہدہ ہے جس میں خریدار اور رقم فراہم کرنے والا شخص مشترکہ طور پر کسی اثاثے (مثلاً مکان) میں شراکت دار بنتے ہیں، یعنی مشترکہ طور پر مکان خریدتے ہیں۔ پھر خریدار رقم فراہم کنندہ سے اس کے حصے کو آہستہ آہستہ قسطوں میں خریدتا ہے، جبکہ رقم فراہم کنندہ خریداری مکمل ہونے تک اپنے حصے کا کرایہ وصول کرتا رہتا ہے۔ وقت کے ساتھ خریدار رقم فراہم کنندہ کا پورا حصہ خرید کر اثاثے کا مکمل مالک بن جاتا ہے، اور شراکت اور کرایہ داری کا معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ معاہدہ سود سے پاک ہوتا ہے اور اسلامی اصولوں کے مطابق ہوتا ہے۔
حوالہ جات
وفی السنن الکبریٰ للبیہقي:
عن فضالۃ بن عبید صاحب النبي صلی اﷲ علیہ وسلم أنہ قال: کل قرض جر منفعۃ فہو وجہ من وجوہ الربا۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي، کتاب البیوع، باب کل قرض جر منفعۃ فہو ربا، دارالفکر.
الدر المختار - (5 / 166)
وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.
وفی صحيح مسلم - (باب لعن اكل الرباوموكله)
عن جابر قال لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا ومؤكله وكاتبه وشاهديه وقال هم سواء.
الدر المختار (6 / 482):
(لا انتفاع بہ مطلقا) لا باسستخدام و لا سکنی ولا لبس و لا اجارہ و لا اعارہ سواء کان من مرتہن او راهن (الا باذن) کل للآخر و قیل لا یحل للمر تہن لأنہ ربا و قیل إن شرطہ کان ربا وإلا لا۔ و فی الأشباہ و الجواهر: أباح الراهن للمر تہن أکل الثمار أو سکنی الدار أو لبن الشاۃ المرهونۃ فأکلہا لم یضمن و لہ منعہ ثم أفاد فی الأشباہ أنہ یکرہ للمر تہن الانتفاع بذلک و سیجیء آخر الرهن.
صدر في ذلك القرار رقم (136) من قرارات مجمع الفقه الإسلامي، ونصه:
- المشاركة المتناقصة: معاملة جديدة تتضمن شركة بين طرفين في مشروع ذي دخل، يتعهد فيها أحدهما بشراء حصة الطرف الآخر تدريجاً سواء كان الشراء من حصة الطرف المشتري في الدخل، أم من موارد أخرى.
(2) أساس قيام المشاركة المتناقصة: هو العقد الذي يبرمه الطرفان، ويسهم فيه كل منهما بحصة في رأس مال الشركة، سواء أكان إسهامه بالنقود أم بالأعيان بعد أن يتم تقويمها، مع بيان كيفية توزيع الربح، على أن يتحمل كل منهما الخسارة - إن وجدت - بقدر حصته في الشركة.
(3) تختص المشاركة المتناقصة بوجود وعد ملزم من أحد الطرفين فقط، بأن يتملك حصة الطرف الآخر، على أن يكون للطرف الآخر الخيار، وذلك بإبرام عقود بيع عند تملك كل جزء من الحصة، ولو بتبادل إشعارين بالإيجاب والقبول.
(4) يجوز لأحد أطراف المشاركة استئجار حصة شريكه بأجرة معلومة، ولمدة محددة، ويظل كل من الشريكين مسؤولاً عن الصيانة الأساسية بمقدار حصته.
(5) المشاركة المتناقصة مشروعة إذا التُزم فيها بالأحكام العامة للشركات، ورُوعيت فيها الضوابط الآتية:
أ - عدم التعهد بشراء أحد الطرفين حصة الطرف الآخر بمثل قيمة الحصة عند إنشاء الشركة؛ لما في ذلك من ضمان الشريك حصة شريكه، بل ينبغي أن يتم تحديد ثمن بيع الحصة بالقيمة السوقية يوم البيع، أو بما يتم الاتفاق عليه عند البيع.
ب - عدم اشتراط تحمّل أحد الطرفين مصروفات التأمين أو الصيانة وسائر المصروفات، بل تحمّل على وعاء المشاركة بقدر الحصص.
ج - تحديد أرباح أطراف المشاركة بنسب شائعة، ولا يجوز اشتراط مبلغ مقطوع من الأرباح، أو نسبة من مبلغ المساهمة.
د - الفصل بين العقود والالتزامات المتعلقة بالمشاركة.
هـ - منع النص على حق أحد الطرفين في استرداد ما قدمه من مساهمة (تمويل). اهـ.
وبنحو ذلك جاء المعيار رقم (12) الخاص بالشركات الحديثة، من المعايير الشرعية الصادرة عن هيئة المراجعة والمحاسبة للمؤسسات المالية الإسلامية، وفيه:
المشــاركة المتناقصة عبارة عن شــركة يتعهد فيها أحد الشركاء بشراء حصة الآخر تدريجيا، إلى أن يتملك المشتري المشروع بكامله. ولا بد أن تكون الشركة غير مشــترط فيها البيع والشراء، وإنما يتعهد الشريك بذلك بوعــد منفصل عن الشــركة، وكذلك يقع البيع والشــراء بعقد منفصل عن الشركة، ولا يجوز أن يشترط أحد العقدين في الآخر.
يجب أن تطبق على المشاركة المتناقصة الأحكام العامة للشركات، وبخاصة أحكام شركة العنان.
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
03/4/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |