84917 | نکاح کا بیان | نسب کے ثبوت کا بیان |
سوال
ایک عورت کا 22فروری2024ء کو نکاح ہوا اور 5 مارچ2024ء کو رخصتی ہوئی، اس کے بعد اس کے ہاں 25 اگست کو بچے کی ولادت ہوئی، تو یہ شمسی اعتبار سے چھ ماہ سے کم ماہ بنتے ہیں اور قمری اعتبار سے پانچ مارچ کو 25شعبان 1445ھ تھی اور پچیس اگست کو 21 صفر1446ھ تھی، تو قمری حساب سے بھی پانچ ماہ اور کچھ دن بنتے ہیں، اب درج ذیل دو سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
- نسب کے ثبوت کے لیے مدت کیسے متعین کی جائے گی، یعنی دنوں کے اعتبار سے یا مہینوں کے اعتبار سے؟ اس کے طریقہ کی وضاحت کر دیں، نیز رخصتی سے پہلے کے ایام اس مدت میں شمار کیے جائیں گے یا نہیں؟
- نکاح سے قبل اگر یہ لڑکی طلاق یافتہ ہو تو پھر کیا حکم ہو گا؟ یعنی بچے کا نسب کس کی طرف منسوب ہو گا؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ اس عورت کے ساتھ اب اس کا شوہر کیا سلوک کرے؟ طلاق دے یا اپنے پاس رکھے؟
وضاحت: سائل نے بتایا کہ رخصتی سے پہلے ہمبستری نہیں ہوئی، نیز اس نے ولادت کے فورا بعد بچے کے نسب کا انکار کر دیا تھا اور لڑکی کو اس کے والدین کے گھر چھوڑ دیا تھا۔ لڑکی پہلے سے طلاق یافتہ ہے، عدت مکمل ہونے تک کوئی بچہ پیٹ میں نہیں تھا، عدت گزرنے کے چھ ماہ بعد نکاح ہوا، پہلے شوہر کے طلاق دینے اور بچے کی ولادت کے درمیان ایک سال پانچ ماہ اور ستائیس دنوں کا وقفہ ہے۔نیز سائل کے بقول لڑکی خود بھی اقرار کر رہی ہے کہ مجھ سے بدکاری کا ارتکاب ہوا ہے۔ اور عورت کی عدت ختم ہونے اور پہلے شوہر کی طلاق کے ایک سال بعد دوسری جگہ نکاح کیا ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
-
فقہائے کرام رحمہم اللہ نے ماں کے پیٹ میں بچےکے حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ بیان کی ہے، اس مدت میں مہینوں کا اعتبار ہو گا یا دنوں کا تو اس کی صراحت کسی عبارت میں نہیں ملی، البتہ دیگر مسائل جیسے عدت وغیرہ پر قیاس کرتے ہوئے اصول یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر یہ عمل یعنی حمل کا ٹھہرنا مہینے کے شروع میں ہو تو مہینوں کا اعتبار کیا جائے گا (اگرچہ علوق یعنی حمل کا ٹھہرنا ایک مخفی اور باطنی عمل ہے، مگر آج کل الٹراساؤنڈ وغیرہ کے ذریعہ سے اس کے ٹھہرنے کی مدت معلوم کی جا سکتی ہے) اور اگر مہینہ کے درمیان میں ہو تو پہلے اور آخری مہینے میں دنوں کا اعتبار کیا جائے گا اور بقیہ درمیانی مدت میں قمری مہینوں کا اعتبار کیا جائے گا، خواہ وہ تیس دن کے ہوں یا انتیس دن کے۔
باقی حدیثِ پاک کےالفاظ"الولد للفراش"(بچے کا نسب نکاح کرنے والے شخص سے ثابت ہوتا ہے)کی تصریح سے معلوم ہوتا ہےکہ یہ چھ ماہ کی مدت نکاح کے وقت سے شمار کی جائے گی، کیونکہ نکاح کے فوراً بعد عورت شوہر کے لیے حلال اور ہمبستری جائز ہو جاتی ہے، اس لیے مروّجہ رخصتی کا اعتبار نہیں ہو گا، لہذا مذکورہ صورت میں رخصتی سے پہلے کے ایام بھی چھ ماہ کی مدت میں شامل کیے جائیں گے اور صورتِ مسئولہ میں نکاح کے وقت (11شعبان بمطابق22فروری) سے ولادت (20صفر بمطابق 25 اگست) تک قمری اور شمسی دونوں اعتبار سے چھ ماہ کی مدت پوری ہوتی ہے، لہذا یہ کہنا درست نہیں کہ یہ بچہ نکاح کے وقت سے چھ ماہ سے کم مدت میں پیدا ہوا ہے۔
فتح القدير للكمال ابن الهمام (3/ 476) دار الكتب العلمية،بيروت:
(قوله إن كان الطلاق وقع في أول الشهر) هو أن يقع في أول ليلة رئي فيها الهلال (تعتبر الشهور بالأهلة) اتفاقا في التفريق والعدة (وإن كان وقع في وسطه فبالأيام في التفريق) أي في تفريق الطلقات بالاتفاق فلا تطلق الثانية في اليوم الموفي ثلاثين من الطلاق الأول بل في الحادي والثلاثين فما بعده؛ لأن كل شهر معتبر بثلاثين يوما، فلو طلقها في اليوم الموفي ثلاثين كان جامعا بين طلاقين في شهر واحد (وفي حق العدة كذلك عند أبي حنيفة) تعتبر بالأيام، وهو رواية عن أبي يوسف فلا تنقضي عدتها إلا بمضي تسعين يوما (وعندهما يكمل الأول بالأخير والشهران المتوسطان بالأهلة) وقوله في الفتاوى الصغرى: تعتبر في العدة بالأيام بالإجماع يخالف نقل الخلاف (قوله وهي مسألة الإجارات) يعني إذا استأجر ثلاثة أشهر في رأس الشهر اعتبرت بالأهلة اتفاقا ناقصة كانت أو كاملة وإن استأجرها في أثناء شهر تعتبر الأشهر الثلاثة بالأيام عنده، وعندهما يكمل الشهر الأول بالأخير وفيما بين ذلك بالأهلة. وقيل الفتوى على قولهما؛ لأنه أسهل وليس بشيء.
الھدایۃ(2/281) دار احياء التراث العربي – بيروت:
وإذا تزوج الرجل امرأة ،فجاءت بولد لأقل من ستة أشهر منذ يوم تزوجها لم يثبت نسبه؛لأن العلوق سابق على النكاح ،فلا يكون منہ .وإن جاءت به لستة أشهر، فصاعدا يثبت نسبه، اعترف به الزوج أو سكت.
-
اس سوال کے جواب سے پہلے بطورِ تمہید جاننا چاہیے کہ اگر کوئی عورت نکاح کے چھ ماہ بعد بچے کو جنم دے اور اس کا شوہر ولادت کے بعد مبارک بادی لینے کے ایام یعنی سات دن کے اندر اندر اس بچے کے نسب کا انکار کر دے کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے تو اس صورت میں میاں بیوی کے درمیان لعان ہو گا، لعان کے بغیر شوہر سے نسب کی نفی نہیں کی جائے گی لعان کا مطلب یہ ہے کہ قاضی کے پاس دونوں میاں بیوی چار چار قسمیں اٹھائیں گے، پہلے مرد یوں قسمیں اٹھائے گا کہ اللہ کی قسم میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اس بچے کے نسب کی نفی کرنے میں سچا ہوں اور پانچویں مرتبہ کہے گا کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اگر میں اس بچے کے نسب کی نفی کرنے میں جھوٹوں میں سے ہوں۔ پھر عورت چار مرتبہ یوں قسم اٹھائے گی کہ اللہ کی قسم میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے اس بچے کی نفی کرنے میں یہ شخص جھوٹاہے اور پانچویں مرتبہ کہے گی کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہو اگر یہ شخص اس بچے کے نسب کی نفی میں سچا ہے۔ اس طرح لعان کرنے کے بعد قاضی دونوں کے درمیان تفریق کر دے گا اور اس بچے کا نسب اس کی والدہ سے جوڑ دے گا۔
اور اگر ولادت کے شروع کے ایام میں شوہر خاموش رہے اور سات دن گزرنے کے بعد بچے کے نسب کا انکار کرے تو فقہائے کرام رحمہم اللہ نے صراحت کی ہے کہ اس صورت میں اس کا یہ انکار معتبر نہیں ہو گا اور بچے کا نسب اسی شخص سے ثابت ہو گا، کیونکہ ولادت کے بعد شروع کے ایام میں اس کا خاموش رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بچہ اسی کا ہے، پھر اس کے بعد اس کا یہ کہنا کہ یہ بچہ میرا نہیں، درحقیقت بیوی پر زناکی تہمت لگانا ہے، جس کی وجہ سے قاضی کے پاس دونوں کے درمیان لعان ہو گا، لعان کے بعد قاضی دونوں کے درمیان تفریق کر دے گا، مگر اس بچے کا نسب اس شخص سے ختم نہیں کرے گا۔
اس تمہید کے بعد سوال کا جواب یہ ہے کہ صورتِ مسئولہ میں چونکہ نکاح سے لے کر بچے کی ولادت تک شرعی اعتبار سے حمل کی کم سے کم مدت یعنی چھ ماہ مکمل ہے اس لیے اصولی اعتبار سے اس بچے کا نسب مذکورہ خاتون کےموجودہ شوہر سے ثابت ہونا چاہیے، مگر چونکہ موجودہ شوہر نے ولادت کے فوراً بعد اس بچے کے نسب کا انکار کر دیا تھا، اس لیے اب مذکورہ شوہر اور اس کی بیوی کے درمیان عدالت میں لعان (جس کی تفصیل تمہید میں ذکر کی جا چکی ہے) ہو گا، لعان کے بعدقاضی بچے کا نسب مذکورہ شخص سے ختم کرکے اس کی ماں کے ساتھ جوڑ دے گا اور جب تک عدالت میں قاضی کے پاس لعان نہ ہو اس وقت تک بچہ اسی شوہر کی طرف منسوب ہو گا۔
باقی سابق شوہر سے اس بچے کا نسب نہیں جوڑا جا سکتا، کیونکہ سائل کے بقول عورت کی عدت ختم ہونے کے بعد دوسری جگہ نکاح کیا گیا تھا، نیز شرعی اعتبار سے زانی سےبھی بچے کا نسب ثابت کرنا ممکن نہیں، اگرچہ عورت زنا کا اقرار کرے، کیونکہ شوہر کی موجودگی میں یہ ضروری نہیں کہ یہ بچہ زانی کے نطفہ سے پیدا شدہ ہے، اس لیے حمل کا ٹھہرنا ایک مخفی امر ہے، لہذا اس میں یہ احتمال موجودہے کہ یہ بچہ شوہر کے پانی سے پیدا ہوا ہو۔ نیزحدیثِ پاک میں واضح طور پر زانی سے بچے کے نسب کی نفی کی گئی ہے، اس لیے شرعی اعتبار سے اگر شوہر سے نسب ثابت کرنا ممکن ہو تو بچہ اس کی طرف منسوب ہو گا، ورنہ شرعاً لعان کے بعداس کا نسب ماں سے جوڑ دیا جائے گا۔
حوالہ جات
سنن أبي داود ت الأرنؤوط (3/ 586) دار الرسالة العالمية، بيروت:
حدثنا زهير بن حرب، حدثنا يزيد بن هارون، أخبرنا حسين المعلم، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه عن جده، قال: قام رجل فقال: يا رسول الله، إن فلانا ابني عاهرت بأمه في الجاهلية، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "لا دعوة في الإسلام، ذهب أمر الجاهلية، الولد للفراش وللعاهر الحجر"
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (3/ 20) المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة:
قال - رحمه الله - (ولو نفى الولد عند التهنئة وابتياع آلة الولادة صح، وبعده لا ولاعن فيهما) أي لو نفى ولد امرأته في الحالة التي تقبل التهنئة فيها، وتبتاع آلة الولادة صح، وبعدها لا يصح، ويلاعن فيهما أي فيما إذا صح نفيه، وفيما إذا لم يصح لوجود القذف فيهما، وقال أبو يوسف ومحمد رحمهما الله يصح نفيه في مدة النفاس لأنه إذا طالت المدة لا يصح نفيه، وإذا قصرت يصح لأن وجود قبول التهنئة منه، ودلالته تمنع صحة النفي إجماعا، وإذا لم يوجد يصح نفيه اتفاقا فطول المدة دليل القبول اتفاقا.
البناية شرح الهداية (5/ 579) دار الكتب العلمية – بيروت:
[نفى الرجل ولد امرأته عقيب الولادة]
م: (وإذا نفى الرجل ولد امرأته عقيب الولادة) ش: أي حين ولدته م: (أو في الحالة) ش: أي أو نفاه في الحالة م: (التي تقبل التهنئة) ش: على بناء المجهول برفع التهنئة، قال
الجوهري: التهنئة خلاف التعزية، وتقول هنأته بالولادة تهنئة تهنيئا، وكل أمر آت من غير تعب فهو هنيء، ومنه كلوا هنيئا مريئا، وأصله مهموز اللام م: (وتبتاع) ش: على صيغة المجهول أي يشتري م: (آلة الولادة) ش: مثل الشد والقماط والشيء الذي يفرش تحت الولد حين يوضع، والأشياء التي يلف فيها الولد حين تضعه أمه م: (صح
نفيه،ولاعن به، وإن نفاه بعد ذلك لاعن ويثبت النسب، هذا عند أبي حنيفة) ش: وهو قول أبي حنيفة - رضي الله تعالى عنه -.
اللباب في شرح الكتاب (3/ 79) المكتبة العلمية، بيروت:
(وإذا نفى الرجل ولد امرأته عقيب الولادة أو في الحال) أي المدة (التي تقبل) فيها (التهنئة) ومدتها سبعة أيام عادة كما في النهاية (أو تبتاع له) أي تشترى فيها (آلة الولادة صح نفيه) ؛ لاحتياجه إلى نفي ولد غيره عن نفسه، ولم يوجد منه الاعتراف صريحاً ولا دلالة (ولاعن به) لأنه بالنفي صار قاذفاً (وإن نفاه بعد ذلك لاعن وثبت النسب) ؛ لأنه ثبت نسبه بوجود الاعتراف منه دلالة، وهو السكوت وقبول التهنئة؛ فلا ينتفي بعد ذلك، وهذا عند أبي حنيفة (وقال أبو يوسف ومحمد: يصح نفيه في مدة النفاس) ؛ لأن النفي يصح في مدة قصيرة، ولا يصح في مدة طويلة، ففصلنا بينهما بمدة النفاس؛ لأنه أثر الولادة، وله أنه لا معنى للتقدير؛ لأن الزمان للتأمل، وأحوال الناس فيه مختلفة، فاعتبرنا ما يدل عليه، وهو قبول التهنئة، أو سكوته عندها، أو ابتياعه متاع الولادة أو مضى ذلك الوقت، هداية. قال الإمام أبو المعالي: والصحيح قول أبي حنيفة، واعتمده المحبوبي والنسفي والموصلي وصدر الشريعة، تصحيح ولو كان الزوج غائباً فحالة علمه كحالة ولادتها.
فتح القدير للكمال ابن الهمام (4/ 354) دار الفكر،بيروت:
فأما إن أقرت بانقضاء العدة بعد ثلاثة أشهر أو لم تقر، فإن أقرت ثم جاءت بولد لأقل من ستة أشهر من وقت الإقرار ثبت نسبه، وإن جاءت به لستة أشهر أو أكثر لم يثبت النسب لانقضاء العدة بإقرارها، وما جاءت به لا يلزم كونه قبلها ليتيقن بكذبها، وإن لم تقر بانقضائها ولم تدع حبلا فعند أبي حنيفة ومحمد إن جاءت به لأقل من تسعة أشهر من وقت الطلاق ثبت نسبه وإلا فلا، وعند أبي يوسف يثبت إلى سنتين في الطلاق البائن، وإلى سبعة وعشرين شهرا في الرجعي لاحتمال أنه وطئها في آخر عدتها الثلاثة الأشهر فعلقت سنتين، وإن كانت ادعت حبلا فهي كالكبيرة من حيث إنها لا يقتصر انقضاء عدتها على أقل من تسعة أشهر لا مطلقا، فإن الكبيرة يثبت نسب ولدها في الطلاق الرجعي لأكثر من سنتين وإن طال إلى سن الإياس لجواز امتداد طهرها ووطئه إياها في آخر الطهر.
الهداية مع فتح القدير (4/ 352) دار الفكر،بيروت:
(والمبتوتة يثبت نسب ولدها إذا جاءت به لأقل من سنتين) لأنه يحتمل أن يكون الولد قائما وقت الطلاق فلا يتيقن بزوال الفراش قبل العلوق فيثبت النسب احتياطا، (فإن جاءت به لتمام سنتين من وقت الفرقة لم يثبت) لأن الحمل حادث بعد الطلاق فلا يكون منه لأن وطأها حرام. قال (إلا أن يدعيه) لأنه التزمه. وله وجه بأن وطئها بشبهة في العدة.
فتح القدير للكمال ابن الهمام (4/ 352) دار الفكر،بيروت:
(قوله والمبتوتة يثبت نسب ولدها إذا جاءت به لأقل من سنتين) لأنه يجوز كون الحمل كان قبل الطلاق فيثبت النسب (وإن جاءت به لتمام سنتين من وقت الفرقة لم يثبت) نسبه لتيقن العلوق بعد البينونة ووطؤه بعد البينونة حرام. قيل: إن هذه الرواية مخالفة لرواية الإيضاح وشرح الطحاوي والأقطع، والرواية التي تجيء بعد هذا في الكتاب أيضا وهي قوله وأكثر مدة الحمل سنتان فإن فيها ألحقت السنتان بأقل من السنتين حتى إنهم أثبتوا النسب إذا جاءت به لتمام سنتين، وإن لفظ الحديث يؤيد صحة تلك الروايات، فأما قوله: إن لفظ الحديث إلى آخره فليس بصحيح؛ لأن حاصله أنه لا يمكث الولد في البطن أكثر من سنتين.
الفتاوی الهندية: (باب فی ثبوت النسب، کتاب الطلاق، ص:536، ج:1، ط:رشیدیه):
"قال أصحابنا: لثبوت النسب ثلاث مراتب (الأولى) النكاح الصحيح وما هو في معناه من النكاح الفاسد: والحكم فيه أنه يثبت النسب من غير عودة ولا ينتفي بمجرد النفي وإنما ينتفي باللعان، فإن كانا ممن لا لعان بينهما لا ينتفي نسب الولد كذا في المحيط."
تحفة الفقهاء (2/ 221) دار الكتب العلمية، بيروت:
وإن كان القذف بنفي الولد وكذبته المرأة وخاصمته إلى الحاكم فإنه يأمر الحاكم الزوج باللعان وهو أن يقوم الرجل فيقول أشهد بالله إنني لمن الصادقين فيما رميتها به من نفي ولدها هذا أربع مرات ويقول في الخامسة إن لعنة الله علي إن كنت من الكاذبين فيما رميتها به من نفي ولدها هذا ثم يأمر المرأة أن تقول أشهد بالله إنه لمن الكاذبين فيما رماني به من نفي ولدي هذا أربع مرات ثم تقول في الخامسة إن غضب الله علي إن كان من الصادقين فيما رماني به من نفي ولدي هذا......... وإذا تم اللعان بينهما لا تقع الفرقة ما لم يفرق القاضي بينهما.
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
4/ربیع الثانی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |