03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میاں اور بیوی میں طلاق کے عدد میں اختلاف
84914طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

ایک میری بیٹی میمونہ کا نکاح جاوید علی سے ہوا تھا۔ شادی کے بعد دونوں خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔ ایک دن میری بیٹی نے روتے ہوئے مجھے بتایا کہ جاوید نے کہا،تم زبان سے توتلی ہو، صحیح بول نہیں سکتی۔ میں نے اپنے والد کے کہنے پر تم سے شادی کی تھی اور اب میرا مقصد پورا ہو گیا ہے، اس لیے میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔ جاوید نے تین بار یہ جملہ دہرایا، تو میں نے فوراً کہا، جاوید، تم کیا کر رہے ہو؟ تم تین بار کہہ چکے ہو! اس پر جاوید نے کہا، تین بار کیا، میں پانچ بار بھی کہتا ہوں کہ تمہیں طلاق ہے۔بعد میں، میں نے جاوید سے نرمی سے پوچھا کہ کیا تم نے واقعی میمونہ کو طلاق دی ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ ہاں، میں نے ایک بار طلاق دی ہے، مجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔اب براہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ کیا یہ طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان طلاق کے معاملے میں اختلاف کی صورت میں دیانت اور قضاء کا حکم علیحدہ علیحدہ ہے، قضاءً مرد کا قول اور دیانتاً عورت کا قول معتبر ہوتا ہے، قضاءً کا مطلب یہ ہے کہ ایسی صورت میں اگر معاملہ عدالت میں پہنچ جائے اور عورت کے پاس اپنے دعوی پر گواہ نہ ہوں تو قاضی مرد سے قسم لے کر اس کے حق میں فیصلہ کر دے گا اور اس صورت میں خاوند اگر جھوٹا ہوا تو اس کا گناہ اسی پر ہو گا اور شرعاً یعنی "فیما بینہ وبین اللہ" عورت اس کے لیے حلال نہیں ہو گی۔ دیانتاً کا مطلب یہ ہے کہ اگر عورت کو طلاق کا پکا یقین ہو تو وہ اپنی ذات کے حق میں اسی پر عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے اور اس کے لیے خاوند کو اپنے اوپر (صحبت وغیرہ کے لیے)قدرت دینا جائز نہیں ہوتا۔کیونکہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے یہ اصول بیان فرمایا ہے:"المرٲة کالقاضی" یعنی جس طرح قاضی ظاہری صورتِ حال (مدعی گواہ پیش کردے یا گواہ نہ ہونے کی صورت میں مدعیٰ علیہ قسم کھالے) کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند ہوتا ہے، اسی طرح عورت پربھی خاوند کے ظاہری الفاظ کے مطابق عمل کرنا لازم ہوتا ہے۔ صورتِ مسئولہ میں اگر شوہر کی بات درست ہو اور اس نے واقعۃً ایک ہی طلاق دی ہو تو وہ عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے رجوع کرسکتا ہے۔ اور عورت کے لیے غلط بیانی کرنا جائز نہیں۔ لیکن اگر بیوی کو کسی شک وشبہ کے بغیر مکمل یقین ہے کہ شوہر نے اسے تین طلاقیں دی ہیں تو پھر اس کے لیے حکم یہ ہے کہ اب اس سے دور رہے، اور اپنے اوپر اسے بالکل قدرت نہ دے۔ چونکہ شوہر بھی ایک طلاق کا اقرار کررہا ہے اس لیے اگر عدت کے اندر اندر شوہر نے قول یا فعل کے ذریعے رجوع نہیں کیا تو عدت ختم ہونے کے بعد وہ دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے۔ لیکن اگر شوہر نے عدت کے اندر اندر قول یا فعل کے ذریعے رجوع کرلیا تو پھر وہ قضاءً اس وقت تک دوسری جگہ شادی نہیں کرسکتی جب تک شوہر تین طلاق کا اقرار نہ کرے، یا عدالت شرعی طریقے (یعنی کہ عورت اپنے دعویٰ پر دو گواہ پیش کردے یا گواہ نہ ہونے کی صورت میں قاضی شوہر سے قسم کا مطالبہ کرے اور وہ قسم سے انکار کرلے) سے دونوں کے درمیان تفریق نہ کرادے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عورت اپنا مہر معاف کرکے یا روپیہ دے دلاکر اس سے اپنی جان چھڑائے۔ لیکن اگر شوہر تین طلاق کا اقرار نہیں کرتا اور عدالت کے ذریعے بھی تفریق نہ ہوسکے اور شوہر مہر یا روپیہ کے بدلے چھوڑنے کے لیے بھی تیار نہ ہو اور عورت کے لیے زیادہ عرصہ اس طرح رہنا ممکن نہ ہو تو دیانۃً اس کی بھی گنجائش ہے کہ عورت عدت کا زمانہ گزرنے کے بعد اس کی غیر موجودگی یا لاعلمی میں دوسرا نکاح کرے ، اور جب دوسرا شوہر طلاق دیدے تو اس کی عدت گزار کر پہلے شوہر کے پاس جائے اور اس سے یہ کہہ کر تجدیدِ نکاح کا مطالبہ کرے کہ مجھے چونکہ نکاح میں شبہ پیش آگیا ہے اس لیے میں دوبارہ عقد کرنا چاہتی ہوں۔ (باستفادةٍ من فتاویٰ عثمانی:2/355)

حوالہ جات

قال: "أنت طالق طالق طالق" وقال: إنما أردت به التكرار صدق ديانةً لا قضاءً؛ فإن القاضي مأمور باتباع الظاهر والله يتولى السرائر، والمرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا سمعت منه ذلك أو علمت به لأنها لا تعلم إلا الظاهر. )تبيين الحقائق :2/ 218(

ويدين في الوثاق والقيد ويقع قضاءً إلا أن یكون مكرهاً ، والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه، هكذا اقتصر الشارحون ، وذكر في البزازية: وذكر الأوزجندي أنها ترفع الأمر إلى القاضي فإن لم يكن لها بينة يحلفه فإن حلف فالإثم عليه ا هـ ولا فرق في البائن بين الواحدة والثلاث ا هـ )البحر الرائق :3/ 276(

قالوا لو طلقها ثلاثا وأنكر لها أن تتزوج بآخر وتحلل نفسها سراً منه إذا غاب في سفر فإذا رجع التمست منه تجديد النكاح لشك خالج قلبها لا لإنكار الزوج النكاح، وقد ذكر في القنية خلافاً فرقم للأصل بأنها إن قدرت على الهروب منه لم يسعها أن تعتد وتتزوج بآخر؛ لأنها في حكم زوجية الأول قبل القضاء بالفرقة، ثم رمز شمس الأئمة الأوزجندي وقال: قالوا هذا في القضاء ولها ذلك ديانةً، وكذلك إن سمعته طلقها ثلاثاً ثم جحد وحلف أنه لم يفعل وردها القاضي عليه لم يسعها المقام معه ولم يسعها أن تتزوج بغيره أيضاً. قال يعني البديع: والحاصل أنه على جواب شمس الإسلام الأوزجندي ونجم الدين النسفي والسيد أبي شجاع وأبي حامد والسرخسي يحل لها أن تتزوج بزوج آخر فيما بينها وبين الله تعالى وعلى جواب الباقين لا يحل، انتهى. )البحر الرائق :4/ 62(

محمد ادریس

دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

03/ربیع الثانی 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد ادریس بن محمدغیاث

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب