03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کسی بچے کا دوسرے بچے کی آنکھ پھوڑنے کی دیت
84039قصاص اور دیت کے احکاممتفرق مسائل

سوال

ایک بچے نے کسی دوسرے بچے کی طرف پتھرپھینکا جواس کی ایک آنکھ پر لگا، جس کی وجہ  سے اس کی بینائی چلی گئی، ڈاکٹر حضرات  نے بچے کی آنکھ بالکل لا علاج قراردےدی تو اس  بچےپر دوسرے بچے کے لیے شریعت میں کیا جرمانہ عائد ہوتا  ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں اس بچے پر نصف دیت لازم ہوگی جس کی ادائیگی شرعًا اس بچے کی عاقلہ(یعنی اگر اس کا کوئی منظم قبیلہ ہو، جس میں تاوان بھرنے کا باہمی انتظام ہوتو سب سے پہلے ان پر اور اگر وہ نہ ہو تو پھراس کے عصبات میں سے میراث کی ترتیب سے سب سے پہلے باپ دادا اوپر تک، پھر بھائی،  پھربھتیجے، پھرچچے اورپھر چچا زاد) پر لازم ہوگی،  جو تین سال کے عرصہ میں وصول کی جائے گی اس طرح کہ ہر ایک شخص سے سال میں 1.33 درہم یعنی 4.536 گرام چاندی سے زیادہ نہیں لی جائے گی۔ دیت ادا کرنے کی شرعًاتین صورتیں ہیں، تین صورتوں میں سے جو صورت اختیار کی جائے، اس کی گنجائش ہے۔ وہ صورتیں درج ذیل ہیں:

1. پچاس  اونٹ ہیں یا ان کی قیمت۔

2. پانچ سو دینار یا ان کی قیمت (پانچ سو دینار کی مقدار 2.187کلو گرام سونا ہے )۔

3. پانچ ہزار درہم یا ان کی قیمت(پانچ ہزار درہم کی مقدار 15.309 کلو گرام چاندی ہے )۔

دونوں بچوں کے خاندان اور قبیلے والے اگر آپس میں طے کرکے کسی متعین رقم پر مصالحت کریں تو وہ بھی درست ہے۔ اسی طرح اگر مقتول کے تمام ورثاء بالغ ہوں اور وہ اپنی رضا مندی سے دیت معاف کریں تو دیت معاف ہوجائے گی،  لیکن اگر کوئی نابالغ وارث بھی ہو تو دیت میں اس کا  حصہ معاف نہیں ہوگا۔

حوالہ جات

أخرج عبد الرزاق في "مصنفه" (9/64: 18645): من حديث عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: ‌في ‌العين ‌نصف ‌الدية، أو عدل ذلك من الذهب أو الورق.

وقال العلامة  المرغيناني رحمه الله تعالى: قال: "ومن لم يكن من أهل الديوان فعاقلته قبيلته" لأن نصرته بهم وهي المعتبرة في التعاقل.  …قال: "وإن لم يكن ‌تتسع ‌القبيلة لذلك ضم إليهم أقرب القبائل" معناه: نسبا كل ذلك لمعنى التخفيف ويضم الأقرب فالأقرب على ترتيب العصبات: الإخوة ثم بنوهم، ثم الأعمام ثم بنوهم.   (الهداية: 4/ 507)

وقال العلامة المرغيناني رحمه الله تعالى:  قال: "وتقسم عليهم في ‌ثلاث ‌سنين لا يزاد الواحد على أربعة دراهم في كل سنة وينقص منها" قال رضي الله عنه: كذا ذكره القدوري رحمه الله في مختصره، وهذا إشارة إلى أنه يزاد على أربعة من جميع الدية، وقد نص محمد رحمه الله على أنه لا يزاد على كل واحد من جميع الدية في ‌ثلاث ‌سنين على ثلاثة أو أربعة فلا يؤخذ من كل واحد في كل سنة إلا درهم أو درهم وثلث درهم وهو الأصح.( الهداية : 4/ 507)

وقال جمعٌ من العلماء رحمهم الله تعالى: إن صالح أحد الشركاء من نصيبه على عوض، أو عفا سقط حق الباقين عن القصاص وكان لهم نصيبهم من الدية، ولا يجب للعافي شيء من المال. (الفتاوى الهندية : 6/ 21)

راز محمد

دار الافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

1 ذی الحجہ 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

رازمحمدولداخترمحمد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب