03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترکہ خاندانی نظام میں والد کی حیات میں بیٹوں کے لیےقربانی کرنےکا حکم
84136قربانی کا بیانقربانی کے متفرق مسائل

سوال

ہم سات  بھائی (جن میں چار کاروبار کرنے والے) ہیں، والد صاحب بھی حیات ہے، ہم سب کا کھانا پینا ایک ساتھ ہوتا ہے، اگرچہ کاروبار کرنے والوں میں سے ہرایک کا کاروبار الگ الگ ہے، جن میں سےتین بھائیوں نے اپنے اپنے سرمایے سے کاروبار شروع کیا، جبکہ ایک بھائی نے والد صاحب کے دی ہوئی رقم سےاس کے معاون  کے طور پر کاروبار شروع کرکے نفع کمایا، تو کیا  بقرہ عید میں ایک قربانی (جو گھر  کے سربراہ  یعنی  والد صاحب  کے نام ہو) سے  ہمارا  فریضہ قربانی ادا ہوجائےگا یا کاروبار کرنے  والے  بھائیوں میں سے بھی ہر ایک  الگ  الگ  قربانی  کرےگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

قربانی کے واجب ہونےمیں ہرایک شخص کی اپنی ملکیت کا اعتبار ہے، لہذا جن تین بھائیوں نے اپنے سرمایے سے کاروبار شروع کیا ہے ہر ایک کی ملکیت اگر بقدر  نصاب ہے تو اس پر  قربانی  واجب ہوگی اور جس بھائی نے والد صاحب کے سرمایہ سے کاروبار شروع کیا ہے، وہ کاروبار شرعی حساب سے والد صاحب ہی کا شمار ہوگا، لہذا اگر اس بھائی کی ملکیت میں نصاب کے بقدر اپنا ذاتی مال موجود ہو تو اس پر قربانی واجب ہوگی،ورنہ نہیں۔

حوالہ جات

قال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالى: (وشرائطها: ‌الإسلام ‌والإقامة ‌واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر) كما مر. ( الدر المختار :  6/ 312)

وقال أيضًا:  (على كل) حر (مسلم) .... (ذي نصاب فاضل عن حاجته الأصلية) كدينه وحوائج عياله (وإن لم ينم) كما مر. (الدر المختار :  2/ 360)

قال العلامة  الكاساني رحمه الله تعالى: ومنها الغنى؛   لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: من وجد سعة فليضح،  شرط عليه الصلاة والسلام السعة، وهي الغنى. ولأنا أوجبناها بمطلق المال، ومن الجائز أن يستغرق الواجب جميع ماله؛   فيؤدي إلى الحرج فلا بد من اعتبار الغنى. وهو أن يكون في ملكه مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شيء تبلغ قيمته ذلك،  سوى مسكنه وما يتأثث به وكسوته وخادمه وفرسه وسلاحه وما لا يستغني عنه، وهو نصاب صدقة الفطر. (بدائع الصنائع:  5/ 64)

وقال العلامة ابن عابدين   رحمه الله تعالى : أقول:  وفي الفتاوى الخيرية:  سئل في ابن كبير ذي زوجة وعيال،  له كسب مستقل حصل بسببه أموالا ومات، هل هي لوالده خاصة؟  أم تقسم بين ورثته،  أجاب: هي للابن،  تقسم بين ورثته على فرائض الله تعالى حيث كان له كسب مستقل بنفسه. (العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية :  2/ 17)

راز محمد

دار الافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

23 ذی الحجہ 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

رازمحمدولداخترمحمد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب