84809 | وقف کے مسائل | مدارس کے احکام |
سوال
میں ایک مدرسے کا مسؤول (مہتمم)ہوں، کبھی کبھار مسجد کی کسی چیز، مثلًا:سپیکریا بیٹری یا چٹائی وغیرہ کی مستقل طورپر مدرسے کےکسی شعبےمیں استعمال کرنے یا ارجنٹ کسی پروگرام میں استعمال کرنےکی ضرورت پڑتی ہے۔ اسی طرح کبھی کبھی مدرسے کی چیز، مثلًا: مدرسےکی شمسی، بلب وغیرہ مسجد میں استعمال کرنا ہوتا ہےیا پھر مدرسےکی رقم سے مسجد کےلیےباتھ روم یا واش روم بنانا، جبکہ مدرسےکی رقم چندےکی ہوتی ہےتو کیا مسجد کی کسی چیز کو مدرسے اور مدرسے کی چیز کو مسجد کے استعمال میں لاناجائز ہے؟
دوسرا سوال یہ پوچھنا ہےکہ مدرسہ میں نےاپنی ذاتی زمین پر تعمیر کیا ہے، وقف شدہ زمین نہیں، اس کےپاس کچھ زمین خالی پڑی ہوئی ہے، وہ بھی میری ذاتی ہے، لیکن خریدتےوقت یہ نیت کی تھی کہ اگرمدرسےکواس زمین کی ضرورت پڑی تو اس کوبھی استعمال میں لاؤں گا۔ اب میں نےمدرسےکےناظم سے کہا کہ اس میں کھیتی باڑی کرو، تاکہ مدرسےکوبھی فائدہ ہواور تمہیں بھی، انہوں نےمزارعت کے اصولوں کےمطابق اس میں اپنا کا م شروع کیااورظاہر ہے کہ ایسے میں مدرسےکی رقم بھی لگانی پڑتی ہے، اس لیےضرورت پڑنےپرمیں اس کو چندےکی رقم دیتا ہوں۔ اب کسی مولانا صاحب نے بتایا کہ مدرسے کی رقم کو کاروبارمیں لگانا جائزنہیں تو کیا مذکورہ زمین میں مدرسےکےفائدےکی غرض سےمذکورہ کاروبارمیں چندےکی رقم لگاناجائز ہے یا نہیں؟
براہ کرم! شریعت کی روشنی میں راہنمائی فرماکرممنون فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
(1) شرعًا ایک وقف کی چیز دوسرے وقف میں استعمال کرناجائز نہیں، لہذا جو چیز مسجد کی رقم سے خریدی گئی ہو وہ مسجدہی کےلیےوقف ہے، اس کو مدرسے میں استعمال کرنا جائز نہیں، البتہ اگر مسجدکےاندرہی مسجد کا لاؤڈ سپیکروغیرہ مدرسے کی کسی تقریب میں احتیاط کےساتھ استعمال کیاجائےتو اس کی گنجائش ہے، لیکن مسجد سے باہرلےجانےکی اجازت نہیں۔ اسی طرح مدرسے کے چندے سے خریدی گئی چیز مدرسہ کےلیےہی خاص ہے، لہذا نہ اس کومسجدکےکام میں استعمال کرناجائزہےاور نہ ہی مدرسےکےچندےکی رقم سےمسجدکےلیےباتھ روم یا واش روم بنانایا دیگر مصالح میں چندےکی رقم لگاناجائز ہے۔
مذکورہ تفصیل اس صورت میں ہے کہ اگر مسجد ومدرسہ ایک دوسرے کے تابع نہ ہوں، لیکن اگروہ ایک دوسرے کےتابع ہوں تو اس صورت میں مدرسےکی چیز مسجد کےلیےاور مسجد کی چیز مدرسے کےلیےاستعمال کرنا جائز ہے۔
(2) اراکینِ مدرسہ مدرسےکےچندے میں شرعًا امین شمارہوتے ہیں، امین کومتعین مصرف کےعلاوہ میں امانت کی رقم لگاناجائز نہیں اورمدرسےکی رقم چونکہ لوگوں کےدیےگئےچندےکی ہوتی ہے، جوانہوں نےمحض طلبہ پرخرچ کرنےکےواسطےدی ہے، لہذا اس کوکسی قسم کےکاروبار میں لگانا جائز نہیں، اگرچہ اس میں مدرسے کا فائدہ ہی کیوں نہ ہو۔
حوالہ جات
قال العلامة الحصكفي رحمہ اللہ تعالی: (وإن اختلف أحدهما) بأن بنى رجلان مسجدين أو رجل مسجدًا ومدرسةً ووقف عليهما أوقافًا (لا) يجوز له ذلك. (تنوير الأبصار مع الدر المختار: 4/ 360).
وقال العلامة ابن عابدين رحمہ اللہ تعالی: قوله: (لا يجوز له ذلك) أي الصرف المذكور....[تنبيه]قال الخير الرملي: أقول: ومن اختلاف الجهة ما إذا كان الوقف منزلين: أحدهما للسكنى، والآخر للاستغلال، فلا يصرف أحدهما للآخر، وهي واقعة الفتوى. اهـ. (رد المحتار : 4/ 361)
وقال العلامة ابن نجيم رحمہ اللہ تعالی : كما يجوز لأهل المحلة أن يجعلوا المسجد الواحد مسجدين فلهم أن يجعلوا المسجدين واحدا لإقامة الجماعات، أما للتدريس أو للتذكير فلا؛ لأنه ما بني له وإن جاز فيه.(البحر الرائق : 2/ 38)
وقال العلامة ابن نجيم رحمہ اللہ تعالی : ولا يجوز للقيم شراء شيء من مال المسجد لنفسه، ولا البيع له، وإن كان فيه منفعة ظاهرة للمسجد. اهـ. (البحر الرائق: 5/ 259)
وقال العلامة ابن نجيم رحمہ اللہ تعالی: والناظر إما وصي أو وكيل، وفي جامع الفصولين ليس للوصي في هذا الزمان أخذ مال اليتيم مضاربة. اهـ. (البحر الرائق: 5/ 61)
راز محمد
دار الافتاء جامعۃ الرشید، کراچی
29 صفر المظفر 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | رازمحمدولداخترمحمد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |