84920 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | کرایہ داری کے متفرق احکام |
سوال
سرکاری ملکیت،سرکاری جائداد ،سرکاری جاگیر یا حکومتی خزانہ جو کہ مال،نقد،پراپرٹی یا تعمیری شکل میں ہیں،کیا وہ بیت المال میں سے ہیں ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
حکومتی خزانہ ،پراپرٹی اور نقدی وغیرہ بیت المال یا اموال الناس کہلاتے ہیں ،یہ تمام رعایہ کی ملکیت ہو تی ہے کسی بھی فرد کی ذاتی ملکیت شمار نہیں ہوتی،لہذا کسی بھی فرد کے لیے خواہ و ہ رعایہ میں سے کوئی ادنی فرد ہو یا حاکم وقت ہو،اجازت نہیں کہ وہ اس میں مالکانہ یا آزادانہ تصرف کرے۔
سرکاری زمینوں کی تفصیل یہ ہے کہ سرکاری زمینوں کی تین قسمیں ہیں ۔
- وہ غیر مملوک اراضی جو مفاد عامہ میں مشغول ہوجیسے قبرستان ، عید گاہ وغیرہ کی زمین۔
- ارض موات :جنگلات ، غیر آباد پہاڑی غیر مملوک زمینیں جوکسی بستی سے متعلق نہ ہوں اور عملا قابل زراعت اور انتفاع بھی نہ ہو۔
- اراضی بیت المال: وہ غیر مملوک زمینیں جو کسی بستی کی ضروریات میں مشغول نہ ہوں اور عملاقابل زراعت اور انتفاع ہوں ۔
ان کے تفصیلی احکام جاننے کے لیے مفتی شفیع رحمہ اللہ کی کتاب" اسلام کا نظام اراضی" مطالعہ فرمائیں۔
حوالہ جات
«بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع» (6/ 194):
«وكذا ما كان خارج البلدة من مرافقها محتطبا بها لأهلها أو مرعى لهم لا يكون مواتا حتى لا يملك الإمام إقطاعها؛ لأن ما كان من مرافق أهل البلدة فهو حق أهل البلدة كفناء دارهم وفي الإقطاع إبطال حقهم.
وكذلك أرض الملح والقار والنفط ونحوها مما لا يستغني عنها المسلمون لا تكون أرض موات حتى لا يجوز للإمام أن يقطعها لأحد؛ لأنها حق لعامة المسلمين وفي الإقطاع إبطال حقهم وهذا لا يجوز۔
محمد سعد ذاكر
دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی
08/ربیع الثانی /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد سعد ذاکر بن ذاکر حسین | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |