03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اسلامی فنانس کےتحت گاڑی خریدنے کی صورت
84930تقسیم جائیداد کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء ِکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

گاڑی اسلامی فنانس کے تحت خریدنے کی کیا صورتیں ہو سکتی ہیں؟ میں ایک صورت بیان کر رہا ہوں: اگر کسی نے ایک کمپنی سے 7 سال کی آسان اقساط پر گاڑی لی اور وہ کمپنی گاڑی کی کل قیمت پر اضافی 8 فیصد لے رہی ہے، کیا یہ جائز ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر ہم 7 سال میں قسطیں ادا نہ کر سکیں اور تاخیر ہو جائے، تو کمپنی کہتی ہے کہ 3 ماہ تک آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا، لیکن اگر تاخیر زیادہ ہو گئی تو مزید کچھ اضافی رقم لگا دی جائے گی۔ کیا یہ صورت جائز ہے؟ اگر نہیں تو اس کی جائز صورتیں کیا ہو سکتی ہیں؟ تفصیل سے رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکور طریقے سے کسی کمپنی یا مروجہ سودی بینکوں سے گاڑی خریدنا سود شرط پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔ اس کا متبادل یہ ہے کہ ایسے اسلامی بینک، جو مستند علماء کرام کی نگرانی میں کام کرتے ہیں، ان سے قسطوں پر گاڑی خریدی جائے۔ اگر بینک کے علاوہ کسی اور کمپنی سے خریدنی ہو تو درج ذیل شرائط کے ساتھ خریدی جا سکتی ہے:

١۔بینک یا کمپنی خود، یا اپنے وکیل کے ذریعے، پہلے گاڑی خرید کر اس پر قبضہ کرے اور پھر الگ معاہدے کے ساتھ خریدار کو فروخت کرے۔

۲۔خریداری کے وقت اسی مجلس میں گاڑی کی نقد یا ادھار دونوں قیمتوں میں سے کسی ایک قیمت کا تعین کر لیا جائے۔

۳۔بوقت فروخت، تمام قسطوں کی مقدار اور ان کی ادائیگی کی مدت طے کر لی جائے۔

۴۔قیمت مقرر ہونے کے بعد، وقت پر کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے جرمانے کے نام پر اضافی رقم وصول نہ کی جائے۔اگر ان شرائط میں سے کوئی شرط نظر انداز کی گئی تو معاملہ جائز نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ کسی قسط کی تاخیر پر مالی جرمانہ کی شرط جائز نہیں ہے۔ اگر بینک یا فروخت کنندہ کمپنی سیفٹی چاہتی ہو تو "التزام تصدق" کا اصول اپنایا جا سکتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ خریدار اپنے اوپر یہ لازم کر لے کہ کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں وہ ایک مخصوص رقم فقراء کو صدقہ کرے گا۔ بعض مالکی فقہاء کے نزدیک یہ شرط جائز ہے اور ضرورت کے وقت اس پر عمل کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ رقم فروخت کنندہ بینک یا کمپنی خود استعمال نہیں کر سکتی، بلکہ اس کی نگرانی میں اسے فقراء پر خرچ کیا جائے گا۔

حوالہ جات

المبسوط للسرخسی(13/8، ط: دار المعرفة):
"وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا، فہو فاسد،وہذا إذا افترقا علی ہذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرقا، حتی قاطَعہ علی ثمن معلوم، وأتما العقد علیہ جاز".

المجلة: (رقم المادة: 225)
" البیعُ مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح".
بحوث فی قضایا فقہیة معاصرة: (12/1، ط: مكتبة دار العلوم كراتشي)
" أما الأئمة الأربعة وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع الموٴجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنہ بیع موٴجل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد".
الھدایۃ: (59/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
فصل: "ومن اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضهلأنه عليه الصلاة والسلام نهى عن بيع ما لم يقبض ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك. وفی تحرير الكلام في مسائل الإلتزام للحطاب المالکی:

وأما إذا التزم المدعى عليه للمدعي أنه إن لم يوفه حقه في وقت كذا فله عليه كذا وكذا فهذا لا يختلف في بطلائه لأنه صريح الربا وسواء كان الشيء الملتزم به من جنس الدين أو غيره وسواء كان شيئاً معيناً أو منفعة وقد رأيت مستنداً بهذه الصفة وحكم به بعض قضاة المالكية الفضلاء بموجب الإلتزام وما أظن ذلك إلا غفلة وأما إذا التزم أنه إن لم يوفه حقه في وقت كذا فعليه كذا وكذا الفلان أو صدقة للمساكين فهذا هو محل الخلاف المعقود له في هذا الباب فالمشهور أنه لا يقضى به کما تقدم وقال ابن دينار يقضى به (محمد بن محمد بن عبد الرحمن الطرابلمي المغربي المعروف بالحطاب الرعيني المالكي تحرير الكلام في مسائل الإلتزام دار الغرب الإسلامي، بيروت ، لبنان الطبعة: الأول، ١٩٨٤ م ص ١٤٦)

وفی ’’ غیر سودی بینکاری‘‘ :

مالکی مذہب کے فقیہ ابن دینار رحمہ اللہ اپنے مذہب کے بڑے فقیہ ہیں ، یہ فقہ مالکی کے مشہور راوی عیسی بن دینار کے بھائی ہیں جو کہ فقہ مالکی کی کتابیں مغرب سے مدینہ منورہ لے کر آئے، علامہ خطاب نے ان کا قول اہتمام سے ذکر کر کے اسے شاذ قرار دینے کے بجائے مسئلہ کو مجتہد فیہ قرار دیا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی حاکم اس بنیاد پر فیصلہ کر دے تو وہ نافذ ہو گا ۔ ۳۰(غیرسودی بینکاری 293)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

13/4/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب