03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عشاء کے بعد لاؤڈ سپیکر پر ترجمہ قرآن مجید کرنا
84940معاشرت کے آداب و حقوق کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

ہمارے گاؤں میں ایک مولوی صاحب روزانہ بعد از نمازِ عشاء لاؤڈ سپیکر کے ذریعے قرآن مجید کا لفظی ترجمہ کرتے ہیں ، لاؤڈ سپیکر کی آواز اتنی تیز ہوتی ہے کہ وہ پورے گاؤں میں دور دور تک سنائی دیتی ہے، چونکہ رات آرام کے لیے ہوتی ہے اور گاؤں میں اکثر بیمار اور بوڑھے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں اس مسلسل اور تیز آواز سے تکلیف ہو سکتی ہے۔ کیا ایسی صورتحال میں مولوی صاحب کی یہ روش اور عمل درست ہے ، قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں ۔

سائل کی طرف سے تنقیح کے بعد یہ امور ظاہر ہوئے:

  1. ترجمہ قرآن کرنے والے  مولوی صاحب اپنا من پسند ترجمہ کرتے ہیں۔مسلکی مسائل کو بیان کرتے ہیں،اور اپنے مسلک کی ترویج کرتے ہیں۔ 
  2. لاؤڈ سپیکر کی تعداد دس سے پندرہ کے درمیان ہے۔
  3. ترجمہ قرآن کو سننے والے افراد تین سے چار ہیں۔
  4. ترجمہ قرآن عشاء کی نماز کے بعد فوراً  شروع کردیتے ہیں،جبکہ دیگر مساجد میں عشاء کی نماز ہورہی ہوتی ہے۔
  5. لاؤڈسپیکر کو بند کروانے کی خاطر   ایک مرتبہ گاؤں میں لڑائی تک نوبت پہنچ چکی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سائل کی طرف سے  تنقیحات  کو مدنظر رکھتے ہوئے صورت مسئولہ کا   حکم یہ ہےکہ بقول سائل ترجمہ قرآن مجید سننے والے افراد کی تعداد زیادہ نہیں ہے،جو ترجمہ سننے والے ہیں ان تک سپیکر  کے بغیر بھی آواز  بہنچ سکتی ہے،لہذا سپیکر کا استعمال بغیر کسی ضرورت کے ہے۔اور اس کے استعمال سے اہل محلہ کو تکلیف بھی ہوتی ہے،لہذا مولوی صاحب کو بغیر سپیکر  کے ترجمہ بیان کرنا چاہیے،یا پھر اتنی ہلکی آواز رکھیں کہ صرف سامعین تک آواز پہنچے،اہل محلہ کو تکلیف نہ ہو۔

حوالہ جات

أخرج الإمام أحمد   بن حنبل في "مسندہ "(14/499(8931 :من حدیث أبي ھریرۃ رضي الله  عنہ  عن النبي ﷺ وسلم قال: " ‌المسلم من سلم الناس من لسانه ويده، والمؤمن من أمنه الناس على دمائهم وأموالهم ".

أجمع العلماء سلفاً وخلفاً علی استحباب ذکر الجماعة في المساجد وغیرها، إلا أن یشوش جهرهم علی نائم أو مصل أو قارئ.(حاشیۃ ابن عابدین:2/525)

وفي الفتح عن الخلاصة: رجل يكتب الفقه وبجنبه رجل يقرأ القرآن ،فلا يمكنه استماع القرآن فالإثم على القارئ .وعلى هذا لو قرأ على السطح والناس نيام يأثم اهـ :أي لأنه يكون سببا لإعراضهم عن استماعه، أو لأنه يؤذيهم بإيقاظهم... الأصل أن الاستماع للقرآن فرض كفاية ......إلا أنه يجب على القارئ احترامه بأن لا يقرأه في الأسواق ومواضع الاشتغال، فإذا قرأه فيها كان هو المضيع لحرمته، فيكون الإثمعليه دون أهل الاشتغال دفعا للحرج .(حاشیۃ ابن عابدین : 2/329)

محمد علی

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

9/ربیع الثانی1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد علی ولد محمد عبداللہ

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب