84945 | طلاق کے احکام | تین طلاق اور اس کے احکام |
سوال
میری شادی کو تین سال پورے ہونے کو ہے،میری ایک بیٹی ہے،میں رخصت ہوکر جوائنٹ فیملی میں گئی،اس گھر میں ساس،سسر،جیٹھ،اس کی بیوی اور دو بچے بھی رہتے تھے،جیٹھ سسر کے پیسوں پر میڈیکل اسٹور کا کام کررہے ہیں،جبکہ میرا شوہر کوئی کام نہیں کرتا،کچھ دن پہلے میرے شوہر کا پیسوں کے معاملے پر اپنے والدین سے جھگڑا چل رہا تھا،وہ جھگڑا گھوم پھر کر میری طرف آگیا،اس دن کافی بحث و مباحثہ ہوا،اگلے دن پھر وہی جھگڑا شروع ہوا جس پر میرے شوہر نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا اور بہت بے دردی سے مارا پیٹا،یہ مار پیٹ دوپہر سے شام تک چلی،اس دوران میرے ساس،سسر بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہے،کسی نے بیٹے کو نہیں روکا،بلکہ الٹا ساس نے بھی ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی،جس پر میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں روک دیا،پھر اسی دوران میں اپنے کمرے میں چلی گئی،میرا شوہر بھی میرے پیچھے کمرے میں آیا،میرا نام لیا اور چند سیکنڈ کے لئے خاموش ہوا اور پھر کہا :طلاق،طلاق،طلاق،آگے پیچھے کچھ نہیں کہا،مثلا میں تمہیں طلاق دیتا ہوں،طلاق نہیں دیتا،بس صرف یہ الفاظ بول کر خاموش ہوگیا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
طلاق واقع ہونے کے لیے الفاظ میں بیوی کی طرف صریح نسبت ضروری نہیں،بلکہ معنوی طور پر نسبت بھی کافی ہے ، معنوی نسبت کا مطلب یہ ہے کہ شوہر کے الفاظ میں خطاب کی ضمیر کے ساتھ بیوی کی طرف لفظوں میں طلاق کی صریح نسبت موجود نہ ہو،بلکہ اسم ظاہر،خطاب کے علاوہ دیگر ضمائر یا صرف اسم اشارہ کے ذریعے بیوی کی طرف طلاق کی نسبت ہو، مثلا زینب کو طلاق،میری بیوی کو طلاق،یا بیوی کی طرف اشارہ کرکے کہے:اسے طلاق ،یا ان کے علاوہ دیگر ایسے قرائن موجود ہوں جن سے معلوم ہورہا ہو کہ یہ بیوی کو ہی طلاق دے رہا ہے،اضافت معنویہ کے کئی قرائن ہیں جن میں ایک تخاطب بھی ہے،یعنی شوہر بیوی کو مخاطب کرکے کہے:طلاق ہے،یاصرف طلاق،طلاق،طلاق کہے۔
چونکہ مذکورہ صورت میں شوہر نے آپ کو آپ کے نام کے ذریعےمخاطب کیا اور پھر تین بار طلاق کے الفاظ بولے ہیں،اس لئے مذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،جس کے بعد اب موجودہ حالت میں آپ دونوں کا دوبارہ نکاح بھی ممکن نہیں رہا۔
حوالہ جات
"الدر المختار " (3/ 247):
"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها".
قال ابن عابدین رحمہ اللہ ":(قوله: لتركه الإضافة) أي المعنوية فإنها الشرط والخطاب من الإضافة المعنوية، وكذا الإشارة نحو هذه طالق، وكذا نحو امرأتي طالق وزينب طالق. اهـ.
{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ} [البقرة: 230]
"صفوة التفاسير" (1/ 131):
"{فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} أي فإن طلق الرجل المرأة ثالث مرة فلا تحل له بعد ذلك حتى تتزوج غيره وتطلق منه، بعد أن يذوق عسيلتها وتذوق عسيلته كما صرح به الحديث الشريف، وفي ذلك زجر عن طلاق المرأة ثلاثا لمن له رغبة في زوجته لأن كل شخص ذو مروءة يكره أن يفترش امرأته آخر .
{فإن طلقها فلا جناح عليهمآ أن يتراجعآ إن ظنآ أن يقيما حدود َﷲ} أي إن طلقها الزوج الثاني فلا بأس أن تعود إلى زوجها الأول بعد انقضاء العدة إن كان ثمة دلائل تشير إلى الوفاق وحسن العشرة".
"البحر الرائق " (3/ 257):
"ولا حاجة إلى الاشتغال بالأدلة على رد قول من أنكر وقوع الثلاث جملة لأنه مخالف للإجماع كما حكاه في المعراج ولذا قالوا: لو حكم حاكم بأن الثلاث بفم واحد واحدة لم ينفذ حكمه؛لأنه لا يسوغ فيه الاجتهاد لأنه خلاف لا اختلاف".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
10/ربیع الثانی1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |