03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کا اپنی زندگی میں کچھ بیٹوں کودینا اورکچھ کو نافرمانی کی وجہ سےمحروم کرنا
84932ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماءِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ

١۔میرے گردے خراب ہو گئے تھے، جس کا علاج کروایا ہے اور الحمدللہ صحت پہلے سے بہتر ہے۔ مثانے میں بھی خرابی ہے اور اس کا علاج بھی جاری ہے۔ زندگی کے باقی لمحات کو غنیمت سمجھ کر فیصلہ کیا ہے کہ مکان اپنی زندگی میں ہی اولاد میں تقسیم کر دوں تاکہ میرے انتقال کے بعد اولاد میں کسی بات پر لڑائی جھگڑا یا اختلافات نہ ہوں۔ مکان میں میرے ساتھ میری اہلیہ اور چار بیٹوں کی رہائش ہے۔ چار بیٹوں میں سے دو شادی شدہ ہیں اور دو غیر شادی شدہ ہیں، جبکہ میری تین بیٹیاں شادی شدہ ہیں اور ان کی رہائش علیحدہ ہے۔مکان میں نے  درج ذیل طریقے سے تقسیم کرکے رسیدبنائی ہےکہ

" میں فضل معبود ولد عبد القیوم اپنامکان نمبر 70R (جونزد مدینہ مسجد میر محمد گوٹھ سلطان آباد کمپاؤنڈ منگھوپیر میں 120 کے رقبہ پر واقع ہے) کو تین بیٹوں فضل الله، فضل محمد، فضل رحیم اور تین بیٹیوں فریدہ، نفیسہ اور سائرہ کے نام پر کرتا ہوں اور قبضے میں بھی دیتا ہوں۔ لکھ دیا ہے تاکہ سند رہےاوربوقتِ ضرورت کام آئے"

معلوم یہ کرنا ہے کہ

 کیا مکان کی مذکورہ تقسیم جو میں نے کی ہے،شریعت کی رو سے درست ہے یانہیں؟ راہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

والد کااپنی زندگی میں اولاد کو مکان تقسیم کرکے دینا ہبہ ہے، میراث کی تقسیم نہیں، کیونکہ میراث کی تقسیم موت کے بعد ہوتی ہے۔ ہبہ کے بارے میں شرعی اصول یہ ہے کہ بیٹے اور بیٹیوں میں سے ہر ایک کو دیا جائے اور برابر دیا جائے۔ بغیر کسی شرعی عذر کے اولاد میں سے کسی کو محروم کرنا یا کم دینا جائز نہیں۔ تاہم، چونکہ ہر انسان کو اپنی صحت والی زندگی میں (یعنی مرض الموت سے پہلے) اپنی جائیداد میں ہر جائز تصرف کا حق حاصل ہوتا ہے، لہٰذا اگر کوئی اپنی زندگی میں مرض الموت سے پہلے اپنی جائیداد بعض اولاد کو دے اور بعض کو نہ دے، اور ان پر ان کا قبضہ بھی کروا دے، تو وہ اس جائیداد کے مالک بن جائیں گے اور موت کے بعد اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، لیکن اس طرح تفریق کرنے سے والد گناہ گار ہوگا۔

آپ کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، جیسا کہ سوال سے واضح ہے، مگر تقسیم آپ نے تین بیٹوں اور تین بیٹیوں میں کی ہے، جس سے ظاہر ہے کہ آپ نے چوتھے بیٹے کو محروم کردیا ہے۔ اس طرح کرنا آپ کے لیے درست نہیں اور گناہ کا سبب ہے۔ اگر بیٹا نافرمان ہے، جیسے کہ اگلے سوال میں آپ نے لکھا ہے، اور اس وجہ سے آپ نے اسے محروم کیا ہےتو اگرچہ نافرمانی کی وجہ سے کم دینا یا محروم کرنا فی نفسہ جائز عمل ہے، مگر پھربھی زیادہ بہتر یہ ہے کہ اپنے بیٹے کو وعظ و نصیحت کرکے اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ اگر وہ سدھر جائے، توبہ کرے اور آپ سے معافی مانگے تو اسے بھی پورا حصہ دیں۔ اور اگر پھر بھی وہ نہیں سدھر تا تو بالکل محروم کرنے کے بجائے اس کی ضرورت کے بقدر اسے دیں اور زیادہ نہ دیں، کیونکہ بالکل محروم کرنے سے اس کے مزید بگڑنے کا اندیشہ ہوگا۔

تاہم، اگر آپ نے اس مکان کے علاوہ مذکورہ بیٹے کی دیگر جائیداد وغیرہ سے اتنی مدد کر دی ہو جو اس مکان میں دیگر اولاد کو مل رہی ہے، تو پھر اگر آپ اس مکان میں مذکورہ بیٹے کا حصہ نہ رکھیں، توپھر آپ گناہ گار نہیں ہوں گے۔

حوالہ جات

صحيح مسلم - عبد الباقي (3/ 1242)

عن النعمان بن بشير قال  تصدق علي أبي ببعض ماله فقالت أمي عمرة بنت رواحة لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فانطلق أبي إلى النبي صلى الله عليه وسلم ليشهده على صدقتي فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم أفعلت هذا بولدك كلهم قال لا قال اتقوا الله واعدلوا في أولادكم فرجع أبي فرد تلك الصدقة.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 127)

وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في النحلى لقوله سبحانه وتعالى {إن الله يأمر بالعدل والإحسان} [النحل: 90]

(وأما) كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا يفضل الذكر على الأنثى وقال محمد العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث للذكر مثل حظ الأنثيين كذا ذكر القاضي الاختلاف بينهما في شرح مختصر الطحاوي وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض.

وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال النبي - عليه الصلاة والسلام - فأرجعه وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى ولو نحل بعضا وحرم بعضا جاز من طريق الحكم لأنه تصرف في خالص ملكه لا حق لأحد فيه إلا أنه لا يكون عدلا سواء كان المحروم فقيها تقيا أو جاهلا فاسقا على قول المتقدمين من مشايخنا وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة.

فتاوى قاضيخان (3/ 154)

رجل له ابن وابنة أراد أن يهب لهما شيئاً و يفضّل أحدهما على الآخر في الهبة أجمعوا على أنه لا بأس بتفضيل بعض الأولاد على البعض في المحبة لأن المحبة عمل القلب وذلك غير مقدور قال عليه الصلاة والسلام حين سوّى بين النساء في القسم هذا قسمي فيما أملك فلا تؤاخذني فيما لا أملك، ولو وهب رجل شيئاً لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض في ذلك على البعض لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا رحمهم الله تعالى روي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين فإن كانا سواء يكره وروى المعلى رحمه الله تعالى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار وإن قصد به الإضرار سوّى بينهم يعطي للابنة مثل ما يعطي للابن، وقال محمد رحمه الله تعالى يعطي للذكر ضعف ما يعطي للأنثى والفتوى على قول أبي يوسف رحمه الله تعالى، رجل وهب في صحته كل المال للولد جاز في القضاء ويكون آثماً فيما صنع، رجل قال جعلت هذا لولدي فلان كانت هبة.

الفتاوى الهندية (4/ 391)

ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية.

رجل وهب في صحته كل المال للولد جاز في القضاء ويكون آثما فيما صنع، كذا في فتاوى قاضي خان. وإن كان في ولده فاسق لا ينبغي أن يعطيه أكثر من قوته كي لا يصير معينا له في المعصية، كذا في خزانة المفتين.

ولو كان ولده فاسقا وأراد أن يصرف ماله إلى وجوه الخير ويحرمه عن الميراث هذا خير من تركه، كذا في الخلاصة.ولو كان الولد مشتغلا بالعلم لا بالكسب فلا بأس بأن يفضله على غيره، كذا في الملتقط.

حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 444)

أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه - صلى الله عليه وسلم - قال «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال» رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم» فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف، وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل.

وفی البحر الرائق:

یکرہ تفضیل بعض الأولاد علی البعض في الہبۃ حالۃ الصحۃ (البحر الرائق ۷؍۴۹۰ زکریا)

وفی الھندیة :

یعطي البنت کالابن عند الثاني، وعلیہ الفتویٰ (شامي ۸؍۵۰۱-۵۰۲ زکریا،و کذا في الفتاویٰ الہندیۃ ۴؍۳۹۱ زکریا)

الدر المختار " (5/ 690)

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به)..... (في) متعلق بتتم (محوز) مفرغ (مقسوم ومشاع لا) يبقى منتفعا به بعد أن (يقسم) كبيت وحمام صغيرين لأنها (لا) تتم بالقبض (فيما يقسم ولو) وهبه (لشريكه) أو لأجنبي لعدم تصور القبض الكامل كما في عامة الكتب فكان هو المذهب وفي الصيرفية عن العتابي وقيل: يجوز لشريكه، وهو المختار (فإن قسمه وسلمه صح) لزوال المانع ".

.

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب