03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کمرشل پلازہ میں دکان کی خریداری کے معاملہ کا حکم
84960خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

زید نامی ایک شخص نے ایک کمرشل پلازہ میں تئیس لاکھ(2300000) روپے کے عوض ایک عدد دکان خریدی، پلازہ کا صرف ڈھانچہ مکمل ہوا ہے، باقی کام جاری ہے، پلازہ کی پالیسی کے مطابق زید کے اکاؤنٹ میں ڈسکاؤنٹ کے نام سے ماہانہ تئیس ہزار روپیہ ماہانہ آرہا ہے اور یہ ڈسکاؤنٹ پلازہ کی تعمیر مکمل ہونے تک ملے گا، اس کے بعد دکان سپرد کر دی جائے گی اور ڈسکاؤنٹ ختم ہو جائے گا۔ اسی طرح پلازہ کی یہ بھی پالیسی ہے کہ ایک سال مکمل ہونے پر کوئی شخص اپنا معاملہ ختم کر کے اپنی مکمل رقم واپس لے سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا خریدوفروخت کا یہ معاملہ جائز ہے؟

وضاحت: سائل نے بتایا کہ اگر کوئی کسٹمر اپنی رقم واپس لینے کی درخواست دیدے تو اس کو معاہدے کے مطابق پلازہ کی انتظامیہ رقم واپس کرنے کی پابند ہے اور پلازہ کی انتظامیہ اس پر عمل بھی کر رہی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق مذکورہ معاملہ شرعا دو وجہ سے ناجائز ہے:

پہلی وجہ: معاہدہ میں ماہانہ ڈسکاؤنٹ کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ فریق اول فریق دوم کو مکمل رقم کا ایک فیصدماہانہ ڈسکاؤنٹ دیا کرے گا، یہاں تک کہ پروجیکٹ مکمل ہوجائے یا یہ کہ کسٹمر کی طرف سے رقم واپس لینے کی درخواست موصول ہوجائے۔ جبکہ پروجیکٹ مکمل ہونے کی مدت بھی معلوم نہیں کہ یہ کب مکمل ہو گا؟ کیونکہ اگر بالفرض یہ پروجیکٹ آٹھ سال میں مکمل ہو تو ڈسکاؤنٹ کے طور پر واپس کی جانے والی رقم بائیس لاکھ (2208000) روپے سے زیادہ ہو گی، اس کا مطلب دکان کی قیمت ایک لاکھ روپے سے بھی کم ہوئی اور اگر پروجیکٹ مکمل ہونے میں چار مہینے مزید تاخیر ہو گئی تو دکان کی قیمت صفر ہو جائے گی اور کسٹمر کو دکان مفت میں ملے گی، اور ایسی صورت میں یہ خریدوفروخت کی بجائے ہبہ یعنی ہدیہ کا معاملہ ہو گا، جبکہ مارکیٹ میں کوئی بھی شخص اتنا ڈسکاؤنٹ دینے کو تیار نہیں ہوتا، لہذا اس طرح نامعلوم مدت تک ڈسکاؤنٹ دینے کی شرط کی وجہ سے اصل قیمت میں جہالت واقع ہو گی اور قیمت میں جہالت کی وجہ سے خریدفروخت کا معاملہ فاسد اور ناجائز ہو جاتا ہے۔

دوسری وجہ: معاہدہ میں یہ بھی درج ہے کہ اگر کسٹمردکان کی بکنگ کی تاریخ کے بعد اپنی رقم واپس لینے کی درخواست دیدے تو اس کو اس کی رقم واپس کر دی جائے گی اور سائل کے بقول اس شرط کی پابندی لازمی ہے، کیونکہ یہ شرط معاہدہ کا حصہ ہے اور پلازہ کی انتظامیہ اس پر عمل بھی کر رہی ہے، اس لیے فقہائے کرام رحمہم اللہ کی اصطلاح میں یہ معاملہ "بیع بشرط الاقالة"ہے، یعنی ایسی خریدوفروخت جس میں معاملہ کو  فسخ یعنی کینسل کرنے کی شرط لگائی گئی ہو اور خریدوفروخت کے معاملے میں ایسی شرط لگانے سے معاملہ ناجائز اور فاسد ہو جاتا ہے۔

لہذا مذکورہ بالا وجوہ کے پیشِ نظریہ معاہدہ خلاف شرع ہے اور یہ دراصل سود کا حیلہ اپنایا گیا ہے، لہذا شرعاً اس کو ختم کرنا ضروری ہے، اس کےبعدفریقین باہمی رضامندی سے دوبارہ نئے سرے سے معاملہ کرسکتے ہیں، جس میں ڈسکاؤنٹ کی شرط ختم کی جائے یا کم از کم معاہدہ میں یہ لکھا جائے کہ پلازہ کی انتظامیہ اپنی مرضی سے اتنے ماہ  تک ڈسکاؤنٹ دےگی، نیز یہ شرط بھی ختم کی جائے کہ "کسٹمر کے  رقم واپس لینے کی درخواست دینے پر اس کو اس کی رقم واپس کر دی جائے گی"۔ شرط ختم کرنے کے بعد اگر کوئی کسٹمر اپنی رقم واپس لینے کی درخواست دے اور پلازہ کی انتظامیہ اپنی مرضی سے اس کو قبول کر لے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

حوالہ جات

المبسوط للسرخسي (14/ 83) دار المعرفة – بيروت:

فإن حط جميع الثمن يتعذر إلحاقه بأصل العقد؛ لأنه يخرج به العقد من أن يكون بيعا، ويصير هبة، ولم يقصد المتعاقدان ذلك بأصل السبب فلهذا جعلناه هبة.

الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 52) دار احياء التراث العربي – بيروت:

قال: "ولكل واحد من المتعاقدين فسخه" رفعا للفساد، وهذا قبل القبض ظاهر؛ لأنه لم يفد حكمه فيكون الفسخ امتناعا منه، وكذا بعد القبض إذا كان الفساد في صلب العقد لقوته، وإن كان الفساد بشرط زائد فلمن له الشرط ذلك دون من عليه لقوة العقد، إلا أنه لم تتحقق المراضاة في حق من له الشرط.

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (239/1)الناشر: دار الجيل:

إيضاح الحط من المبيع: إذا حط المشتري بعد البيع من المبيع ينظر فإن كان المبيع مسلما فيه وكان دينا كأن يكون عشر كيلات من صبرة الحنطة هذه فالحط صحيح.

مجلة الأحكام العدلية (ص: 52) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:

الفصل الثاني: في بيان التزييد والتنزيل في الثمن والمبيع بعد العقد

(المادة 256) حط البائع مقدارا من الثمن المسمى بعد العقد صحيح ومعتبر مثلا لو بيع مال بمائة قرش ثم قال البائع بعد العقد حططت من الثمن عشرين قرشا كان للبائع أن يأخذ مقابل ذلك ثمانين قرشا فقط.

البناية شرح الهداية (8/ 54) دار الفكر-بيروت:

: (وفي هذا بالقياس) ش: أي أخذ في الزائد على ثلاثة أيام في خيار النقد بالقياس، يعني النص مقيد بالثلاث في خيار النقد. وما ورد النص في خيار النقد في الزيادة، وقال الأترازي: أبو يوسف مر على أصله أيضا على قوله المرجوع إليه، ولكنه فرق، وهو بين هذا وبين شرط الخيار على قوله الأول، حيث جوز الزيادة على الثلاثة في شرط الخيار. ولم يجوز هاهنا؛ لأنه اتبع أثر ابن عمر وهو الذي ذكرناه، ولم يتجاوز حد الأثر، وفيما زاد على ذلك أخذ بالقياس؛ لأن القياس أن لا يصح هذا البيع أصلا كما قال زفر: لأنه بيع شرط فيه إقالة فاسدة، وهي إقالة معلقة بالشرط، والبيع بشرط الإقالة الصحيحة باطل فبشرط الإقالة الفاسدة أولى.

تبيين الحقائق وحاشية الشلبي (4/ 16) المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة:

ابن عمر في هذه المسألة أنه أجاز ثلاثة أيام وقد مر ذلك قبل هذا فإذا كان كذلك لم يتجاوز أبو يوسف حد السنة والأثر وأخذ بهما وفيما زاد على ذلك أخذ بالقياس؛ لأن القياس أن لا يصح هذا البيع أصلا كما قال زفر؛ لأنه بيع شرط فيه إقالة فاسدة وهي إقالة معلقة بالشرط والبيع بشرط الإقالة الصحيحة باطل فشرط الإقالة الفاسدة أولى.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

12/ربیع الثانی 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب