84966 | وصیت کا بیان | متفرّق مسائل |
سوال
میری بیوی نے وصیت كی تھی کہ ميرے پاس جو كچھ بھی سازوسامان، زیور اور کپڑے وغیرہ موجود ہیں، میری وفات کے بعد وہ سب کچھ آپ کا ہے، آپ جس طرح چاہیں اس میں تصرف کر سکتے ہیں اور حالت مرض میں بھی اس نے بارہا یہ الفاظ کہے تھے۔اب وہ فوت ہو چکی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا یہ وصیت درست اور نافذ ہے، میں اس کے ترکہ میں جس طرح چاہے تصرف کر سکتا ہوں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
بطورِ تمہید وصیت کے بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ وارث کے لیے وصیت نہیں کی جاسکتی، کیونکہ وارث کا حصہ شریعت نے وراثت میں متعین کر دیا ہے، البتہ اگر میت کے عاقل بالغ ورثاء وارث کے لیے کی گئی وصیت کو نافذ قرار دے دیں تو ایسی وصیت پر عمل کرنا درست ہے، وصیت کے بارے میں دوسرا حکم یہ ہے کہ اگر وصیت مرض الوفات[1] میں کی جائے تو وہ ثلث یعنی ایک تہائی میں نافذ ہوتی ہے، تہائی کے علاوہ تمام مال میراث شمار ہوتا ہے، البتہ اس صورت میں بھی اگر ورثاء تہائی سے زیادہ مال کی وصیت کو معتبر قرار دیدیں تو درست ہے، کیونکہ میراث ان کا حق تھا اور اپنے حق سے دستبرداری شرعا جائز ہے۔
اس تمہید کے بعد سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ کی بیوی کی طرف سے آپ کے لیے کی گئی وصیت شرعا معتبر نہیں، کیونکہ شریعت نے آپ کا حصہ وراثت میں سے متعین کر دیا ہے، البتہ اگر مرحومہ کے عاقل بالغ ورثاء آپ کے حق میں اس وصیت کو نافذ قرار دیں تو درست ہے، ورنہ مرحومہ نے بوقت انتقال چھوٹا بڑا جو بھی سازوسامان چھوڑا ہے وہ سب مرحومہ کا ترکہ ہے، اسی طرح وہ قرض جو کسی کے ذمہ واجب الادا ہو وہ بھی ان کے ترکہ میں شامل ہے۔اس میں سے تجہیزوتکفین کے متوسط اخراجات ادا کرنے، مرحومہ کے ذمہ واجب الاداء قرض اداساگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس پر عمل کرنے کے بعد تمام ترکہ مرحومہ کے ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہو گا۔ باقی کس وارث کو کتنا حصہ ملے گا؟ تو اس سلسلے میں ورثاء کی تفصیل ذکرکے دوبارہ سوال پوچھ سکتے ہیں۔
[1] فقہائے کرام رحمہم اللہ کی تصریح کے مطابق مرض الوفاة اس کو کہتے ہیں جس میں درج ذیل تین شرائط پائی جائیں:
الف: اس کی مرض کی وجہ سے وفات پاجانے کا غالب گمان ہو۔
ب: آدمی اس مرض کی وجہ سے ایک سال کے اندر اندر فوت جائے۔
ج: اگر عورت بیمارہوتو اپنے گھریلو کام جیسے کھانا بنانا اور کپڑے دھونا وغیرہ سے عاجز آجائے۔(کذا فی مجلة الاحکام العدلیہ مادة:1595)
حوالہ جات
سنن أبي داود ت الأرنؤوط (4/ 492) دار الرسالة العالمية:
2870 - حدثنا عبد الوهاب بن نجدة، حدثنا ابن عياش، عن شرحبيل بن مسلم سمعت أبا أمامة، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "إن الله قد أعطى كل ذي حق حقه، فلا وصية لوارث"
تحفة الفقهاء (3/ 207) دار الكتب العلمية، بيروت:
ومنها أن يكون الموصى له أجنبيا حتى أن الوصية للوارث لا تجوز إلا بإجازة الورثة لقوله عليه السلام لا وصية لوارث إلا أن يجيز الورثة فإن أجاز بعض الورثة تنفذ بقدر حصته من الميراث لا غير.
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
12/ربیع الثانی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |