85106 | طلاق کے احکام | خلع اور اس کے احکام |
سوال
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!میری شادی 2018میں ہوئی۔ 2023میں میری بیوی سسرال چلی گئی اور اس نے اپنی والدہ کے ذریعے پیغام پہنچایا کہ میں ابھی تک کنواری ہوں۔ اس کے بعد صلح ہونے پر واپس آ گئی۔ پھر ایک دن سسرال واپس چلی گئی، پھر منانے پر واپس آگئی۔ اس کے بعد ہم اکھٹے عمرے پر گئے اور سیرو تفریح کے لیے دبئی بھی گئے۔ اس دوران میں نے اپنے میڈیکل ٹیسٹ کروائے جو کہ بحمدللہ تمام کلئیر ہیں۔ اس کے بعد پھر وہ واپس سسرال چلی گئی اور ان کی والدہ نے مجھے میسیج کیا کہ میری بیٹی آپکے ساتھ رہنا نہیں چاہتی اور آپ سے طلاق چاہتی ہے، ورنہ میں قانونی کاروائی کی طرف جاؤں گی۔
میرا ارادہ یہی ہے کہ میں اسے گھر واپس لانا چاہتا ہوں اور طلاق دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور اگر وہ یک طرفہ خلع لینے عدالت جائے گی تو اس کی کیا شرعی حیثیت ہوگی؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
خلع زوجین کی رضامندی پر موقوف ہے، عدالت خلع پر مجبور نہیں کر سکتی ،تاہم دعوی میں فسخِ نکاح کے اسباب ہوں تو بعض صورتوں میں عدالت فسخ نکاح کر سکتی ہے ۔لہذا اگر عدالت نے شوہر کی رضامندی کے بغیر خلع کا فیصلہ کیا تو اس کا یہ فیصلہ عام حالت میں شرعاً نافذ نہیں ہوتا ، البتہ بسا اوقات فیصلے میں کچھ ایسے امور ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر فیصلے کے نفاذ کا فتوی دیا جاتا ہے۔ لہذا جب عدالت فیصلہ کر دے تو وہ کسی دار الافتاء میں دکھا کر حکم معلوم کر لیا جائے۔
حوالہ جات
قال شمس الأئمة السرخسي رحمه الله تعالى:فيحتمل الفسخ بالتراضي أيضا، وذلك بالخلع، واعتبر هذه المعاوضة المحتملة للفسخ بالبيع والشراء في جواز فسخها بالتراضي. (المبسوط للسرخسي: 6/ 171)
و قال ایضاً: والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد. (المبسوط للسرخسي: 6/173)
قال علاءالدین الكاساني رحمه الله تعالى:وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول. (بدائع الصنائع : 3/ 145)
قال ابن عابدین رحمه الله تعالى: ولا يخفى أن المراد بقوله نفذ هو ما لو حكم به حنبلي في مسألتنا، بخلاف الحنفي؛ فإنه وإن صح حكمه بغير مذهبه على أحد القولين، لكنه في زماننا لا يصح اتفاقا لتقييد السلطان قضاءه بالحكم الصحيح من مذهبنا، فلا ينفذ حكمه بالضعيف فضلا عن مذهب الغير. فافهم .(رد المحتار: 3/ 444)
قال الجصاص رحمه الله تعالى :لو كان الخلع إلى السلطان شاء الزوجان أو أبيا. إذا علم أنهما لا يقيمان حدود الله لم يسألهما النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك ،ولا خاطب الزوج بقوله "اخلعها" بل كان يخلعها منه،ويرد عليه حديقته، وإن أبيا أو واحد منهما، كما لما كانت فرقة المتلاعنين إلى الحاكم، لم يقل للملاعن: "خل سبيلها"، بل فرق بينهما. (أحكام القرآن 1:/ 478)
محمد اسماعیل بن نجیب الرحمان
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
۱۶ربیع الثانی ۱۴۴۶ ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اسماعیل ولد نجیب الرحمان | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |