85031 | ہبہ اور صدقہ کے مسائل | ہبہ کےمتفرق مسائل |
سوال
ایک باپ دورانِ حیات ایک بیٹے کو اپنے زمین میں سے گھر تعمیر کرنے کیلئے ایک پلاٹ دیتا ہے، بیٹا اس پر اپنی آمدن، والد صاحب اور دوستوں کی اعانت سے اور بیوی کا زیور بیچ کر اس پر گھر تعمیر کرتا ہے اور طویل عرصہ سےاسی گھر میں الگ تھلگ رہائش پذیر رہتا ہے، والد کی وفات کے بعد کیا یہ گھرترکہ میں شمار ہو گا یا اسی بیٹے کی ملکیت تصور ہو گی ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسئولہ میں اگر والد صاحب نے یہ زمین بیٹے کو مالک بنانے کی نیت سے بطورِ ہبہ دی تھی اور بیٹے نے اس پر قبضہ کر لیا تو ہبہ کا معاملہ مکمل ہو گیا اور شرعا بیٹا اس کا مالک بن گیا، اس کے بعد بیٹے نے اپنا مکان اس پر تعمیر کر لیا تو اب یہ مکمل مکان بیٹے کی ملکیت سمجھا جائے گا، والد صاحب کے دیگر ورثاء کو اس مکان میں سے کسی قسم کے مطالبے کا حق حاصل نہیں ہو گا۔ نیز اس مکان کی تعمیر میں جو والد صاحب کی رقم خرچ ہوئی ہے، اگر وہ بطورِ اعانت دی گئی تھی، جیسا کہ سوال میں مذکور ہے تو اس صورت میں اس رقم کی واپسی کا مطالبہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔
حوالہ جات
النتف في الفتاوى للسغدي (1/ 512) مؤسسة الرسالة،بيروت:
شرائط الهبة:قال والهبة لا تصح الا بخمس شرائط: ان تكون معلومةان تكون محوزةوان تكون مفروغةوان تكون مقبوضة عند الفقهاء وابي عبد الله وقال مالك ان وهب بغير ثواب صح بغير قبض وان وهب للثواب فله منعه حتى يثاب منها.
الاختيار لتعليل المختار (3/ 48) دار الكتب العلمية – بيروت:
قال: (وتصح بالإيجاب والقبول والقبض) أما الإيجاب والقبول فلأنه عقد تمليك ولا بد فيه منهما. وأما القبض فلأن الملك لو ثبت بدونه للزم المتبرع شيء لم يلتزمه وهو التسلم بخلاف الوصية ; لأنه لا إلزام للميت لعدم الأهلية ولا للوارث لعدم الملك، ولأن الملك بالتبرع ضعيف لا يلزم، وملك الواهب كان قويا فلا يلزم بالسبب الضعيف، وقد روي عن جماعة من الصحابة مرفوعا وموقوفا «لا تجوز الهبة والصدقة إلا مقبوضة محوزة» ، والمراد الملك لأن الجواز ثابت بدونه إجماعا.
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
16/ربیع الثانی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |