03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدصاحب کا رہائشی گھر وراثت ہو گا یا ساتھ رہنے والے بیٹے کی ملکیت؟
85032میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ایک بیٹا اپنے والد کے ساتھ گھر میں رہائش پذیر رہتا ہے، دیگر بیٹے الگ الگ گھروں میں رہائش  پذیر رہتے ہیں، والد کی وفات کے بعد شریک رہائش پذیر بیٹا اسی گھر کی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے، جبکہ اس کے پاس کسی قسم کا کوئی ثبوت یا گواہ موجود نہیں ہے، کیا یہ گھر ترکہ میں شمار ہو گا یا ان کی ملکیت تصور ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکرکی گئی تفصیل کے مطابق اگر والد صاحب نے باقاعدہ مکان خالی کر کے اس بیٹے کو ہبہ نہیں کیا اور بیٹے کے پاس اس کا کوئی ثبوت بھی موجود نہیں ہے تو اس صورت میں یہ مکان والد کی وراثت شمار ہو گا، جس میں تمام ورثاء اپنے شرعی حصوں کے مطابق حق دار ہوں گے، بغیرشرعی ثبوت کے مذکورہ بیٹے کا اس مکان پر ملکیت کا دعوی کرنا ہرگز جائز نہیں۔

حوالہ جات

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (2/ 353) دار إحياء التراث العربي،بيروت:

(وتتم) الهبة (بالقبض الكامل) ، ولو كان الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به لقوله - عليه السلام -: «لا تجوز الهبة إلا مقبوضة» والمراد هنا نفي الملك لا الجواز؛ لأن جوازها بدون القبض ثابت خلافا لمالك، فإن عنده ليس القبض بشرط الهبة قال صاحب المنح: هبة الشاغل تجوز، وهبة المشغول لا تجوز، والأصل في جنس هذه المسائل أن اشتغال الموهوب بملك الواهب يمنع تمام الهبة مثاله: وهب جرابا فيه طعام لا تجوز.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

16/ربیع الثانی 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب