03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تاخیر کی وجہ سے اضافی کمیشن کے مطالبہ کا حکم
85306خرید و فروخت کے احکام دین )معاوضہ جو کسی عقدکے نتیجے میں لازم ہوا(کی خرید و فروخت

سوال

    مسئلہ یہ ہے کہ حضرت میں نے ایک گاڑی کا سودا کروایا تھا جو کہ تقریبا سوا کروڑ روپے کا تھا ،جس میں پارٹی کو کل رقم بیچنے والے کو دینی تھی اور مجھے میری کمیشن تیس ہزار روپے ملنے تھے ،مگر سودے والی رات خریدار پارٹی مکمل پیسے ارینج نہیں کر پائی اور تین سے چار دن کا ٹائم مانگ لیا جو کہ بیچنے والی پارٹی نے نہیں دیا اور وہ مجھ سے الجھ پڑے کہ ہم نے گاڑی تجھے دی ہے تیری پارٹی سے ہمارا واسطہ نہیں ۔مجبورا  میں نے اپنے انویسٹر سے پیسے لے کر پیسے پوری کیے ،مگر تین چار دن گذرنے کے بعد بھی میری پارٹی مجھے پیمنٹ نہیں دے پائی اور میرے انویسٹر کے پیسے پھنس گئے ۔میں مسلسل خریدار پارٹی کو فون کرتا رہا ،مگر وہ بقایا پیسے نہیں دے پائے۔گاڑی کی فائل میرے پاس تھی ۔آج تقریبا چالیس سے پچاس دن گذرنے کے بعد وہ بقایا رقم لے کر مجھ سے فائل لینے آئے ہیں، اب میں نے ان سے کہا ہے کہ آپ کی وجہ سے میرے انوسٹر کے پیسے پھنسے رہے ہیں ،اخلاقًا مجھے اسے قرض حسنہ لوٹاتے وقت کچھ نہ کچھ دینا ہے، لہذا میں اپنے اٹھارہ لاکھ پر آپ سے کچھ سود یا اضافی پینلٹی یا جرمانہ نہیں لگا رہا جب کہ آپ لوگ ڈیفلٹر ہو اور ٹائم پر ادائیگی نہ کرنے پر سودا بھی خراب کر چکے ہو ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ میں نے پارٹی سے کہا ہے کہ پہلے جو کمیشن آپ لوگوں نے مجھے تیس ہزار دینی تھے وہ مجھے بڑھا کر دیں، چونکہ اب میری محنت اور میرا پیسا بھی لگا ہے جس پر انھوں نے کہا کہ یہ بھی سود ہے، ایسا ہے ویسا ہے اور ہم سود نہیں دیں گے۔ اب بات بگڑ گئی۔ لہذا آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ کیا یہ کمیشن کی رقم زیادہ مانگنا سود میں شمار ہے؟ کیونکہ اگر یہ سود میں شمار نہیں تو میں پھر اس مسئلہ کا حوالہ دے کر یہ معاملہ حل کر سکتا ہوں ۔جزاکم اللہ

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 آپ نے جو رقم خریدار کی طرف سے ادا کی تھی ،  وہ قرض ہے اور اس قرض پر یا اُس کی تاخیر پر کمیشن کے نام سے  اضافی رقم کا مطالبہ کرنا  یا لینا جائز نہیں  ،لہذا آپ اپنے مطالبہ کو ختم کردیں، اگر ختم کرنے کے بعد وہ اپنی خوشی سے کچھ دیں تو آپ لے سکتے ہیں  ۔ 

اگر خریدارنے  بلا کسی وجہ کی تاخیر کی ہو  تو اس پر وہ گناہگار ہے، جس پر اسے اللہ کے حضور توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔

حوالہ جات

قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ:قوله: (كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا ،كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة: وفي الذخيرة:  وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به.

( رد المحتار  (166/5:

قا ل العلامۃ الکاساني رحمہ اللہ:وأما الذي يرجع إلى نفس القرض، فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحا، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم  أنه نهى عن قرض جر نفعا ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا  وعن شبهة الربا واجب. هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض، فأما إذا كانت غير مشروطة فيه، ولكن المستقرض أعطاه أجودهما؛ فلا بأس بذلك؛ لأن الربا اسم لزيادة مشروطة في العقد، ولم توجد، بل هذا من باب حسن القضاء، وأنه أمر مندوب إليه، قال النبي عليه السلام: خيار الناس أحسنهم قضاء .   (بدائع الصنائع :7/ 395)

قال جماعۃ من العلماء رحمھم  اللہ: قال محمد   رحمه الله تعالى   في كتاب الصرف : إن أبا حنيفة  رحمه الله تعالى  كان يكره كل قرض جر منفعة .

قال الكرخي: هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد بأن أقرض غلة ليرد عليه صحاحا أو ما أشبه ذلك، فإن لم تكن المنفعة مشروطة في العقد، فأعطاه المستقرض أجود مما عليه، فلا بأس به، وكذلك إذا أقرض رجلا دراهم أو دنانير.(الفتاوى الهندية:3/ 202)

قال العلامۃالسرخسي رحمہ اللہ:قال: أبو يوسف ومحمد رحمهما الله: إن شاء أمره بالبيع والشراء ولم يشترط له أجرا فيكون وكيلا معينا له، ثم يعوضه بعد الفراغ من العمل مثل الأجر، وأبو حنيفة رحمه الله في هذا لا يخالفهما فإن التعويض في هبة الأعيان مندوب إليه عن الكل، فكذلك في هبة المنافع وقد أحسن إليه بالإعانة وإنما جزاء الإحسان الإحسان. (المبسوط للسرخسي :15/ 115)

قا ل العلامۃ  العیني رحمہ اللہ: إن السمسرة إذا شرطت بشيء معين ، ينبغي أن يكون السمسار وصاحب المتاع ثابتين على شرطهما؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: المؤمنون عند شروطهم.( عمدة القاري:12/ 94)

أخرج العلامۃ البخاري رحمہ اللہ: عن همام بن منبه: أنه سمع أبا هريرة رضي الله عنه يقول:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مطل الغني ظلم .(صحيح البخاري:2/ 845)

احسان اللہ

دار الافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

/19  ربیع الثانی 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ بن سحرگل

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب