03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جوائنٹ فیملی سسٹم میں گھرکےافراد کےدرمیان جائیداداور میراث کی تقسیم
85007تقسیم جائیداد کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

مفتی صاحب! ہم سات بھائی ایک گھر میں رہتےہیں، ہمارا کھانا پینااور حساب اکھٹاہوتاہے۔ چاربھائی کماتے ہیں،  دو پڑھتے ہیں اورایک چھوٹاہے۔ اب کچھ عرصہ ہوگیاکہ ہمارےوالدصاحب اللہ تعالی کو پیارے ہوگئے۔ایک بھائی نے والدصاحب کےدیےہوئےایک لاکھ روپےاوردو لاکھ کسی سے قرض لےکران کی زندگی میں ہول سیل کا کاروبارشروع کرکےاب تقریبًا اسی لاکھ کےسرمایہ تک پہنچایا، جبکہ  ایک بھائی شروع سے اب تک ملازمت کر تاآرہاہےاور باقی دو میں سےایک مزدوری کرتےکرتےآخرکاردکان چلاناشروع کردیا، اب تقریبًاپچاس لاکھ سرمایہ بناچکاہےاوردوسرا ملازمت کرتےہوئےایک دوگائے خریدکردودھ بیچنے کا کاروبار کرنے لگا۔ تمام  بھائیوں کےپاس جب بھی کچھ پیسہ آتا تو والد صاحب کو دیتے،  لیکن ایک بھائی، (جس کو والد صاحب نےایک لاکھ روپےدےکرکاروبارشروع کیاتھا) شروع میں دیگر بھائیوں کی طرح والد صاحب کواپنے کاروبارکامستقل حساب دیتےاور کسی خوشی یا غمی کےموقع پرجتنی رقم کی ضرورت پڑتی وہ دےدیتے، شادی کےبعدوہ والدصاحب اورتمام بھائیوں سےناراض ہوگئے، تھوڑےبہت گھریلوخرچےکےعلاوہ اس نے والد صاحب کوشادی کےبعد سےتادم آخرکوئی حساب نہیں دیا، اس نےبار بار والد اور بھائیوں سے کہا کہ میرا اپنا حصہ دے دو، میں الگ ہونا چاہتا ہوں، لیکن اس پر والدصاحب کہتے کہ پہلے دس سال کا حساب مجھےدےدو، پھرالگ ہوں گے۔

اب والد کی وفات کےبعد بشمول ناراض بھائی کے تمام  بھائی کہتے ہیں کہ ہم الگ ہونا چاہتے ہیں اور اپنا سارا سرمایہ برابر تقسیم کرنا چاہتےہیں، پوچھنایہ ہےکہ:

1) کیا ہرایک بھائی کا کاروباراور سرمایہ تمام بھائی بہنوں کےدرمیان تقسیم ہوگا؟ یاہرایک اپنے کاروبار کا خود مالک ہے، دوسروں کا اس میں کوئی حق نہیں؟

2) والدصاحب نے وراثت میں ایک ایکڑ رقبہ خالی پلاٹ، ایک ایکڑ پرمشتمل ایک مکان اور کچھ  نقد رقم  چھوڑی ہے، ان کے ورثہ میں ان کی اہلیہ، سات بیٹے اور چار بیٹیاں شامل ہیں تو شرعی حصوں کےمطابق  ہمارے درمیان میراث کس طرح تقسیم ہوگی؟

وضاحت: میت کے والدین ، بھائی بہنیں، دادا دادی اور نانی موجود نہیں۔ میت کی بیوی حاملہ نہیں۔

وضاحت: سائل نےبتایا کہ والد صاحب کی وفات کے بعد سےہر ایک اپنے اپنے کاروبار کا نفع اپنے پاس رکھتے چلے آرہےہیں، کسی کےپاس بھی جمع کرنےکےلیے نہیں دیتے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1) بھائیوں میں سےجن تین  بھائیوں  نےجو کچھ کمایا ہے،  وہ شرعًاان کا ذاتی سمجھاجاتاہے، لہذا ان کےپاس جتنا سرمایہ ہےوہ ان کی ملکیت شمار ہوتی ہے، نہ والد صاحب کاان میں کوئی حصہ  ہے، جسے میراث کےطورپرتقسیم کیا جاسکےاور نہ ہی دیگر بھائیوں کا کوئی حصہ بنتا ہے، البتہ گھر خرچ کےلیے انہوں نےیا کسی دوسرےبیٹےنےوالد صاحب کو جو کچھ دیاتھا یا گھرکےکسی کام میں جوپیسہ لگایاتھاان کی شرعی حیثیت ہبہ کی ہے، اگر والد کی وفات کےبعدان میں سےکچھ باقی ہوتو بقیہ اموالِ میراث کی طرح اس کوبھی ورثہ میں میراث کےطورپرتقسیم کیا جائےگا۔ ناراض بھائی نےوالد صاحب کی ایک لاکھ اوردو لاکھ کسی سےقرض لی ہوئی رقم سےجو کاروبار شروع کیا تھااس کےایک تہائی کا شرعًا والد صاحب مالک ہےاورقرض کی دولاکھ رقم کےبقدر بیٹااس میں شریک سمجھاجائےگا، لہذا حاصل شدہ نفع سےدو تہائی حصہ کےبقدر بیٹے کودیا جائےگا، باقی ایک لاکھ کا سرمایہ اوراس سےحاصل شدہ نفع ایک تہائی حصہ والد کی ملکیت شمار ہوتی ہے،  جسے ورثہ  میں میراث کےطور پر تقسیم کیاجائے گا۔

2) والدمرحوم نے انتقال کے وقت اپنی ملکیت میں مذکورہ  ناراض بھائی کوشروع کرائےہوئے  کاروبارکے ایک تہائی  سرمایہ اور اس کاایک تہائی نفع،ایک پلاٹ، ایک مکان اور موجود نقد رقم سمیت جو منقولہ و غیر منقولہ مال و جائیداداورسازوسامان چھوڑا ہے،  یہ سب مرحوم کا ترکہ ہے۔ اس میں سےسب سے پہلے مرحوم کی تجہیز و تکفین كےمتوسط اخراجات اداكیے جائیں گے، بشرطیکہ کسی نے اپنی طرف سے احسان کےطورپر ادا نہ کیے ہوں۔  پھر اگر مرحوم کے ذمہ کسی کا قرض  واجب الادا ء ہو تو اس کو ادا کیاجائے گا۔  پھر اگر مرحوم نے کسی غیر وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی  ہو تو بقیہ  مال  میں سے ایک تہائی (3/1)  تک ادا کیا جائےگا۔ اس کے بعد جو کچھ بچ جائے، اس کے  کُل 144حصے کر  کے مرحوم کی اہلیہ کو اٹھارہ حصے (فیصد 12.5%)، مرحوم  کے  سات بیٹوں میں سے ہر ایک کوچودہ چودہ حصے(فیصد  (9.7222% اورمرحوم  کی چار بیٹیوں میں سے ہرایک کو سات سات حصے(فیصد  (4.8611%دیے جائیں گے۔

آسانی کے لیے ذیل میں نقشہ پیش خدمت ہے:

نمبر شمار

ورثہ کی تفصیل

عددی حصص 144

فیصدی حصص

1

زوجہ

18

٪12.5

2

پہلا بیٹا

14

٪9.722

3

دوسرا بیٹا

  14

٪9.722

4

تیسرا بیٹا

14

٪9.722

5

چوتھا بیٹا

14

٪9.722

6

پانچواں بیٹا

  14

٪9.722

7

چھٹا بیٹا

        14

٪9.722

8

ساتواں بیٹا

  14

٪9.722

9

پہلی بیٹی

7

٪4.861

10

دوسری بیٹی

7

٪4.861

11

تیسری بیٹی

7

٪4.861

12

چوتھی بیٹی

7

٪4.861

حوالہ جات

قال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالى:  (هي) لغة: التفضل على الغير ولو غير مال. وشرعًا: (تمليك العين مجانا): أي بلا عوض، لا أن عدم العوض شرط فيه. (الدر المختار: 5/ 687)

وقال العلامة ابن نجيم رحمه الله تعالى:  قوله: ( شركة الملك أن يملك اثنان عينا إرثا أو شراء) بيان للنوع الأول منها، وقوله: إرثا أو شراء مثال لا قيد فلا يرد أن ظاهره القصر عليهما مع أنه لا يقصر عليهما، بل تكون فيما إذا ملكاها هبة أو صدقة أو استيلاء بأن استوليا على مال حربي، أو اختلاطا كما إذا اختلط مالهما من غير صنع من أحدهما أو اختلط بخلطهما خلطا يمنع التمييز أو يتعسر كالحنطة مع الشعير. (البحر الرائق: 5/ 180)

وقال الله تعالى: ((يُوصِيكُمُ ٱللَّهُ فِيٓ أَوۡلَٰدِكُمۡۖ لِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ ٱلۡأُنثَيَيۡنِۚ)) [النساء: 11]

وقال الله تعالى: ((فَإِن كَانَ لَكُمۡ وَلَدٞ فَلَهُنَّ ‌ٱلثُّمُنُ مِمَّا تَرَكۡتُمۚ)) [النساء: 12]

قال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى: ثم شرع في العصبة بغيره فقال (ويصير عصبة بغيره البنات بالابن وبنات الابن بابن الابن) وإن سفلوا. (رد المحتار: 6/ 775)

وقال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالى: (فيفرض للزوجة فصاعدا الثمن مع ولد أو ولد ابن) وأما مع ولد البنت، فيفرض لها الربع (وإن سفل،  والربع لها عند عدمهما) فللزوجات حالتان: الربع بلا ولد، والثمن مع الولد.(تنوير الأبصار مع الدر المختار: (6/ 769 - 770)

وقال العلامة  نظام الدين ومن معهم  رحمه الله تعالى: الخامسة - الأخوات لأب وأم للواحدة النصف وللثنتين فصاعدا الثلثان، كذا في خزانة المفتين، ومع الأخ لأب وأم للذكر مثل حظ الأنثيين.(الفتاوى العالمكيرية : 6/ 450)

                 راز محمد

دار الافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

12       ربیع الثانی 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

رازمحمدولداخترمحمد

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب