03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایسی رقم میں زکاۃ کا حکم جس کی وصول یابی کی امید نہ ہو
85009زکوة کابیانان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی

سوال

 مفتی صاحب! میں نےدو سال پہلے اپنے ایک رشتہ دار کو ایک لاکھ روپے چھ مہینے کے لیےبطورقرض دیے، جس وقت میں نے اُسے قرض دیا تو اس کی مالی حالت کافی بہتر تھی، لیکن  بعد میں اس کےکاروبار میں نقصان ہوا، جس کی وجہ سے اب اس کاگزر بسر بہت مشکل سے ہورہا ہے۔ میں نے اس سے کئی بار قرض وصول کرنے کا مطالبہ کیا، لیکن وہ مجھے قرض ادا نہیں کرپاتااورہر وقت یہ عذرکرتا ہے کہ میرے پاس قرض ادا کرنے کےلیے کچھ  ہی نہیں ہے، کیا   دے دوں؟

اب اس رقم پردو سال سےکچھ زیادہ وقت گزرگیاہے اورمیں جب اس کی یہ حالت دیکھتاہوں تو پتہ چلتا ہےکہ اس سے دوبارہ  وصول کرنا مشکل ہےتواب اس رقم میں میرےاوپر پچھلےدو سالوں کی زکاۃ دینا لازم ہے  یا نہیں؟ اگرلازم  ہے تو ادا کرنے کا کیا طریقہ ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جورقم مقروض سے وصول نہ ہو، گواس کا امکان موجود ہوتو اُس میں فوری طور پرقرض خواہ پرزکوۃ کی ادئیگی ضروری نہیں، البتہ جتنی رقم وصول ہوگی اس میں گزشتہ سالوں کی زکاۃ  کا حساب کرکے ادا کرنا واجب ہوگا۔ تاہم  اگر کبھی وصولی سے مایوس ہوجائے تو زکاۃ معاف ہوجائے گی، پھر اگر کبھی وصول ہوجائے تو گزشتہ سالوں کی زکاۃ واجب نہ ہوگی۔

حوالہ جات

قال الإمام محمد رحمه الله تعالى: أخبرنا أبو حنيفة عن الهيثم عن ابن سيرين عن علي رضي الله عنه: أنه قال في الرجل يكون له الدين فيقبضه: إنه يزكيه لما مضى. (الأصل:  2/96)

وقال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالى: (و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي،كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم. (الدرالمختار:2/ 305)

وقال العلامة عابدين رحمه الله تعالى:قوله: (إذا تم نصابا) الضمير في تم يعود للدين المفهوم من الديون، والمراد:  إذا بلغ نصابا بنفسه أو بما عنده مما يتم به النصاب. (رد المحتار:  2/305)

وقال العلامة عابدين رحمه الله تعالى: قوله: (فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم) هو معنى قول الفتح والبحر: ويتراخى الأداء إلى أن يقبض أربعين درهما ففيها درهم، وكذا فيما زاد بحسابه. اهـ: أي فيما زاد على الأربعين من أربعين ثانية وثالثة إلى أن يبلغ مائتين ففيها خمسة دراهم.  (رد المحتار : 2/305)

وقال العلامة نظام الدين ومن معه رحمهم الله تعالى:ويشترط أن يتمكن من الاستنماء بكون المال في يده أو يد نائبه فإن لم يتمكن من الاستنماء فلا زكاة عليه، وذلك مثل مال الضمار، كذا في التبيين، وهو كل ما بقي أصله في ملكه، ولكن زال عن يده زوالا لا ‌يرجى عوده في الغالب، كذا في المحيط. (الفتاوى العالمكيرية: 1/ 174)

وقال العلامة عابدين رحمه الله تعالى: قوله: (لا زكاة في مال ‌الضمار) الضمار بالضاد المعجمة بوزن حمار. قال في البحر: وهو في اللغة الغائب الذي لا يرجى، فإذا رجي ليس بضمار. (رد المحتار : 2/ 266)

راز محمد

دار الافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

 13 ربیع الثانی  1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

رازمحمدولداخترمحمد

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب