85088 | شرکت کے مسائل | شرکت سے متعلق متفرق مسائل |
سوال
میں اور میری بیوی نے ایک مکان مشترکہ آمدن سے خریدا، جس میں میرا حصہ دو لاکھ پجھتر ہزار (275000)اور میری بیوی کا سرمایہ سات لاکھ پجھتر ہزار (775000)روپے تھا، 2016ء میں یہ مکان چودہ لاکھ روپیہ ميں فروخت ہوا، اس کے بعد چودہ لاکھ روپے میں ہی ایک اور مکان خریدا، اس مکان پر میری بیوی نے چار لاکھ روپیہ کسی سے قرض لے کر خرچ کیا، جبکہ میں نےایک لاکھ ساٹھ ہزار روپیہ اس مکان کے تعمیراتی اخراجات کے لیے دیے گئے، اس کے علاوہ اس مکان کے اوپر والے پورشن (جو بجلی گیس سمیت کرایہ پر دیا گیا تھا)کے ماہانہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی میں خرچ کی گئی رقم چھیانوے ہزار (96000) روپے، گیس کے بلوں کی ادائیگی میں 9600روپے ادا كيے، اس طرح میری طرف سے خرچ کی گئی کل رقم 539600روپے بنتی ہے، جبکہ میری اہلیہ کی طرف سے خرچ کی کل رقم 1175000روپے بنتی ہے، اس مکان کا دوسرا پورشن ہم نے کرایہ پر دیا ہوا ہے، اس کا کرایہ آٹھ سال سے میری اہلیہ لے رہی ہے، اس نے اس کرایہ کی مد سے مذکورہ مکان کے لیے اٹھائے گئے قرض کا بھی چار لاکھ روپیہ ادا کیا اور چار لاکھ روپیہ مزید بھی اس کے پاس بچ گیا ، اب سوال یہ ہے کہ اس مکان میں میرا حصہ کتنا بنتا ہے؟ دوسرا سوال یہ کہ پورشن کو کرایہ پر دینےسے حاصل شدہ کرایہ کا کیا حکم ہے؟ کیا بیوی کو وہ مکمل کرایہ لینے کا حق حاصل ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
1،2۔ مذکورہ مکان میں آپ دونوں کی شرعی اعتبار سے شرکتِ ملک ہے، جس کا اصول یہ ہے کہ مشترکہ چیز میں جس فریق کا جتنا سرمایہ لگا ہو وہ اتنے حصے کا مشاع طور پر اس میں مالک سمجھا جاتا ہے اور اس پر آنے والے اخرجات بھی شرکاء پر اسی تناسب سے واجب الادء ہوتے ہیں، لہذا صورتِ مسئولہ میں پرانے مکان میں آپ کی ملکیت کا تناسب 26.190%، جبکہ آپ کی بیوی کی ملکیت 73.809% تھی۔اس کے بعد اس کو بیچ کر خریدے گئے دوسرے مکان میں بھی ملکیت کا یہی تناسب تھا، البتہ اس کی تعمیر پر آپ کی طرف سے ایک ساٹھ ہزار اور آپ کی بیوی کی طرف سے کہیں سے قرض لے کر چار لاکھ روپیہ خرچ کیا گیا، اس طرح نئے مکان میں آپ کا کل سرمایہ چار لاکھ پینتیس ہزار (435000)روپیہ اور آپ کی بیوی کا سرمایہ گیارہ لاکھ پجھتر ہزار (1175000)روپیہ لگا، (واضح رہے کہ آپ کی طرف سے اوپروالے پورشن کے بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی میں خرچ کی گئی رقم سرمایہ میں شامل نہیں ہو گی، بلکہ یہ مکان کے اخراجات شمار ہوں گے) اس اعتبار سے اس مکان میں آپ کی ملکیت کا تناسب 27.018% اور آپ کی بیوی کی ملکیت 72.981%ہوئی۔ اس کے بعد اسی ملکیت کے تناسب سے دونوں میاں بیوی پر اس کے اخراجات کی ادائیگی واجب تھی، لہذا آپ نے ابھی تک چھیانوے ہزارروپے بجلی کے بل اور چھیانوے سو روپے گیس کے بلوں کی ادائیگی میں خرچ کیے اس میں سے آپ اپنی بیوی کی ملکیت کےتناسب سے اس سے وصول کر سکتے ہیں، کیونکہ ان کی ادائیگی اس کے ذمہ واجب ہے، اسی طرح اوپر والے پورشن سے حاصل شدہ کرایہ بھی اسی تناسب سے فریقین کے درمیان تقسیم ہونا چاہیے تھا، لہذا گزشتہ آٹھ سالوں میں آپ کی اہلیہ نے اوپر واپے مشترکہ پورشن کا جو کرایہ وصول کیا اس میں سے آپ اپنی ملکیت کے تناسب سے کرایہ کی رقم اس سے واپس وصول کر سکتے ہیں۔
حوالہ جات
تحفة الفقهاء (3/ 5) دار الكتب العلمية، بيروت:
الشركة نوعان: شركة أملاك وشركة عقود. شركة الأملاك على ضربين: أحدهما ما كان بفعلهما مثل أن يشتريا أو يوهب لهما أو يوصى لهما فيقبلاوالآخر بغير فعلهما وهو أن يرثاوالحكم في الفصلين واحد وهو أن الملك مشترك بينهماوكل واحد منهما في نصيب شريكه كالأجنبي، لا يجوز له التصرف فيه إلا بإذنه.
الاختيار لتعليل المختار (3/ 12) دار الكتب العلمية – بيروت:
أما شركة الأملاك، أما الجبرية بأن يختلط مالان لرجلين اختلاطا لا يمكن التمييز بينهما أو يرثان مالا. والاختيارية أن يشتريا عينا أو يتهبا أو يوصى لهما فيقبلان أو يستوليا على مال أو يخلطا مالهما، وفي جميع ذلك كل واحد منهما أجنبي في نصيب الآخر، لا يتصرف فيه إلا بإذنه لعدم إذنه له فيه، ويجوز بيع نصيبه من شريكه في جميع الوجوه.
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
19/ربیع الثانی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |