85114 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
بڑے بھائی کو نافرمان ہونے کی وجہ سے والد صاحب نے مکان میں حصے سے محروم کر دیا ہے۔وہ اسی مکان میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ رہائش پذیر ہے، لیکن بجلی اور پانی کے بل ادا نہیں کر رہا اور کہتا ہے کہ جو رقم والد صاحب کی اجازت سےمیں نےتعمیر میں لگائی تھی وہ آپ کو واپس کرنی ہے تو اسی میں سے کٹوتی کرتے جائیں۔ کیا اس کا یہ طرزِ عمل درست ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
والد صاحب کا اپنے بڑے بچے کو نافرمانی کی وجہ سے بالکل محروم کرنا مناسب نہیں ہے، والد صاحب کو نصیحت اور نرمی سے کام لینا چاہیے اور اس کا حصہ بھی رکھنا چاہیے، تاہم اگر والد صاحب نے انہیں چھوڑ کر یہ مکان آپ سمیت دیگر بھائی بہنوں کو ہبہ کر ہی دیا ہے، اور ہر ایک کا حصہ الگ الگ کر کے ان پر قبضہ بھی کرا دیا ہے، تو آپ لوگ اس کے مالک بن گئے ہیں۔ اب آپ لوگوں کی اجازت کے بغیر متعلقہ محروم بھائی اس میں نہیں رہ سکتا،لہذا اس کاآپ بہن بھائیوں کی اجازت کےبغیر اس میں رہنا اور بلوں کی ادائیگی نہ کرنا درست نہیں ہے۔
متعلقہ بھائی کا یہ کہنا کہ "جو رقم والد صاحب کی اجازت سے میں نے تعمیر میں لگائی تھی، وہ آپ کو واپس کرنی ہے، تو اسی میں سے کٹوتی کرتے جائیں" درست نہیں ہے، اس لیے کہ یہ رقم والد صاحب کے ذمہ قرض ہے اور مکان اب بھائیوں اور بہنوں کا ہو چکا ہے، لہٰذا اب ان کی بات معتبر ہوگی۔
تاہم اگر وہ والد صاحب کی اجازت سے کیے ہوئے اپنے اخراجات کا مطالبہ کرتا ہے، تو والد صاحب کواس کا انتظام کر کے اسے دینا ہوگا، اگرگنجائش کے باوجود والد یہ رقم ادانہیں کرتا تو وہ گناہگار ہوگا۔ البتہ اگر فی الوقت والد کےپاس گنجائش نہیں ہے، تو بیٹےکوچاہیےکہ والدصاحب کو مہلت دے اوربھائی،بہنوں کا مکان خالی کردے، اس کےلیے زبردستی اس مکان میں اب رہنا صحیح نہیں ہے۔
حوالہ جات
صحيح مسلم - عبد الباقي (3/ 1242)
عن النعمان بن بشير قال تصدق علي أبي ببعض ماله فقالت أمي عمرة بنت رواحة لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فانطلق أبي إلى النبي صلى الله عليه وسلم ليشهده على صدقتي فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم أفعلت هذا بولدك كلهم قال لا قال اتقوا الله واعدلوا في أولادكم فرجع أبي فرد تلك الصدقة.
المبسوط للسرخسي (11/ 49)
(قال الشيخ الإمام الأجل الزاهد شمس الأئمة السرخسي إملاء:) (اعلم) بأن الاغتصاب أخذ مال الغير بما هو عدوان من الأسباب، واللفظ مستعمل لغة في كل باب مالا كان المأخوذ أو غير مال. يقال: غصبت زوجة فلان وولده، ولكن في الشرع تمام حكم الغصب يختص بكون المأخوذ مالا متقوما. ثم هو فعل محرم؛ لأنه عدوان وظلم، وقد تأكدت حرمته في الشرع بالكتاب والسنة.
أما الكتاب فقوله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم} [النساء: 29] وقال تعالى: {إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما إنما يأكلون في بطونهم نارا} [النساء: 10] وقال - صلى الله عليه وسلم -: «لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيبة نفس منه» وقال - صلى الله عليه وسلم -: «سباب المسلم فسق، وقتاله كفر، وحرمة ماله كحرمة نفسه» وقال - صلى الله عليه وسلم - في خطبته: «ألا إن دماءكم وأعراضكم وأموالكم حرام عليكم كحرمة يومي هذا في شهري هذا في مقامي هذا» (فثبت) أن الفعل عدوان محرم في المال كهو في النفس؛ ولهذا يتعلق به المأثم في الآخرة كما قال - صلى الله عليه وسلم -: «من غصب شبرا من أرض طوقه الله تعالى يوم القيامة من سبع أرضين» إلا إن المأثم عند قصد الفاعل مع العلم به.
فأما إذا كان مخطئا بأن ظن المأخوذ ماله أو كان جاهلا بأن اشترى عينا ثم ظهر استحقاقه لم يكن آثما لقوله - صلى الله عليه وسلم -: «رفع عن أمتي الخطأ والنسيان» والمراد المأثم.
فأما حكمه في الدنيا فثابت سواء كان آثما فيه أو غير آثم؛ لأن ثبوت ذلك لحق صاحبه وحقه مرعي، وإن الآخذ معذور شرعا لجهله وعدم قصده، والحكم الأصلي الثابت بالغصب وجوب رد العين على المالك بقوله - صلى الله عليه وسلم -: «على اليد ما أخذت حتى ترد» وقال - صلى الله عليه وسلم -: «لا يحل لأحد أن يأخذ متاع أخيه لاعبا، ولا جادا، فإن أخذه فليرده عليه» وقال - صلى الله عليه وسلم -: «من وجد عين ماله فهو أحق به» ومن ضرورة كونه أحق بالعين وجوب الرد على الآخذ، والمعنى فيه أنه مفوت عليه يده بالأخذ، واليد لصاحب المال في ماله مقصود به يتوصل إلى التصرف والانتفاع ويحصل ثمرات الملك، فعلى المفوت بطريق العدوان نسخ فعله ليندفع به الضرر والخسران عن صاحبه. وأتم وجوهه رد العين إليه ففيه إعادة العين إلى يده كما كان فهو الواجب الأصلي لا يصار إلى غيره إلا عند العجز عنه، فإن عجز عن ذلك بهلاكه في يده بفعله أو بغير فعله فعليه ضمان المثل جبرانا لما فوت على صاحبه؛ لأن تفويت اليد المقصودة كتفويت الملك عليه بالاستهلاك.
وفی الترمذی رقم الحدیث 1309
عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " مطل
الغني ظلم، وإذا احلت على مليء، فاتبعه، ولا تبع بيعتين في بيعة ". قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح.
قال اللہ تعالیٰ:وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ (البقرة: 280)
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
09/ ربیع الثانی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب |