85146 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
لوگ آن لائن خریداری کے لیے کسٹمر ریویوز(reviews) پر انحصار کرتے ہیں،اگر کسی نے غلط ریویو (review) دیا اور کسی دوسرے کا نقصان ہوا تو اس شخص پر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
موجودہ زمانے میں کسی پروڈکٹ یا سروس کے حوالے سے ریویوکی مختلف صورتیں اور طریقۂ کار رائج ہیں،چنانچہ کسی شخص کی طرف سے کسی چیز (Product) یاخدمات (Services) پر ایسا ریویو دینا جو حقیقت کے برخلاف ہو اس کی بنیادی طور پردوصورتیں ہیں:
پہلی صورت یہ ہے کہ حقیقت کے برخلاف ایسی تعریف کی کہ جس کے نتیجے میں پڑھنے یا سننے والے کے دل میں اس چیز کی خریداری کا داعیہ پیدا ہوا اور اس نے خرید لی،خریداری کے بعد معلوم ہوا کہ مذکورہ چیز دیے گئے ریویو کے مطابق نہیں ہے ۔
حکم: "جن بیوعات(خرید فروخت) سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ان میں سے ایک بیع نجش بھی ہے،اور نجش کا ایک معنی فقہاء کرام رحمہم اللہ یہ بھی کرتے ہیں کہ" کوئی شخص کسی چیز کی ایسی تعریف کرے جو حقیقت پر مبنی نہ ہو تاکہ دوسرے لوگ اس چیز کی جانب راغب ہوں اور اسے خریدیں"مذکورہ معنی کے مطابق غلط ریویو دینا نجش(غلط بیانی کرکے دوسرے کو کسی چیز کی خریداری پر ابھارنا) کے حکم میں ہے اور نجش سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے،لہٰذا ناجش گناہگار تو بہر حال ہوگا،رہی بات ناجش پر ضمان کی تو اس حوالے سے فقہاء کرام رحمہم اللہ کے ہاں ناجش کو ضامن ٹہرانے یا نہ ٹہرانےکی صراحت نہیں ملتی ،البتہ دیگر جزئیات سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ ناجش ضامن نہیں ہوگا،اسی طرح ایسی صورت میں خریدارکو خیار فسخ بھی حاصل نہیں ہوگا" ۔ رد المحتار (20/ 196)
…… كذا ( الحرية فلو قال عبد لمشتر اشترني فأنا عبد ) لزيد ( فاشتراه ) معتمدا على مقالته ( فإذا هو حر ) أي ظهر حرا ( فإن كان البائع حاضرا أو غائبا غيبة معروفة ) يعرف مكانه ( فلا شيء على العبد ) لوجود القابض ( وإلا رجع المشتري على العبد ) بالثمن خلافا للثاني ولو قال اشترني فقط أو أنا عبد فقط لا رجوع عليه اتفاقا درر ( و ) رجع ( العبد على البائع ) إذا ظفر به ( بخلاف الرهن ) بأن قال ارتهني فإني عبد لم يضمن أصلا ، والأصل أن التغرير يوجب الضمان في ضمن عقد المعاوضة لا الوثيقة .
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 257)
إن غره أي غر المشتري البائع وبالعكس أو غره الدلال فله الرد وإلا فلا.الدرالمختار(5/101)
(و) كره (النجش) بفتحتين ويسكن: أن يزيد ولا يريد الشراء أو يمدحه بما ليس فيه ليروجه.
قال ابن عابدین رحمہ اللہ:
(قوله وكره النجش) لحديث الصحيحين «لا تتلقى الركبان للبيع ولا يبع بعضكم على بيع بعض، ولا تناجشوا، ولا يبع حاضر لباد» فتح (قوله أو يمدحه) تفسير آخر، عبر عنه في النهر: بقيل نقلا عن القرماني في شرح المقدمة قال: وفي القاموس ما يفيده.
الموسوعة الفقهية الكويتية (10/ 238، بترقيم الشاملة آليا)
وأصل النّجش : الاستتار ، لأنّ النّاجش يستر قصده ، ومنه يقال للصّائد : ناجش لاستتاره . وقد عرّفه الفقهاء بأن يزيد الرّجل في الثّمن ولا يريد الشّراء ، ليرغّب غيره . أو أن يمدح المبيع بما ليس فيه ليروّجه .
شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن (7/ 2143)
النجش الإثارة يقال: نجش الصيد أثاره. ((قض)): هو تفاعل من النجش، وهو أن يزيد الرجل في ثمن السلعة وهو لا يريد شراءها، ليغتر به الراغب فيشتري بما ذكره، وأصله الإغراء والتحريض، وإنما نهي عنه لما فيه من التغرير، وإنما ذكر بصيغة التفاعل؛ لأن التجار يتعارضون في ذلك، فيفعل هذا لصاحبه علي أن يكافئه بمثله.
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (4/ 67)
وكتب ما نصه قال الأتقاني والمعنى في كراهية النجش الغرور والخداع.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 233)
(ومنها) النجش وهو أن يمدح السلعة ويطلبها بثمن ثم لا يشتريه بنفسه ولكن ليسمع غيره فيزيد في ثمنه وإنه مكروه لما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه «نهى عن النجش» ؛ ولأنه احتيال للإضرار بأخيه المسلم.
(فقہ البیوع،ج:۲،ص:۹۸۸)
ولذلك أجمع الفقهاء على حرمته(النجش). فإن كان الناجش فعل ذلك من عند نفسه، ولم يعلم به البائع أو لم يأمره، فالإثم على الناجش وحده، وإن وقع ذلك بمواطأة من قبل البائع، فالإثم عليهما.وذكر ابن العربي من المالكية أنه إن رأى بائعاً يُغبن في بيعه، ويأخذ منه بعض المشترين السلعة بأقل من قيمة مثلها، جاز النجش حتى تبلغ السلعة قيمتها، بل يكون مأجوراً على رفع الغبن عن أخيه المسلم. وبه يقول الحنفية. قال ابن الهمام رحمه الله تعالى:" فأما إذا لم تكن السلعة) بلغت قيمتها، فزاد القيمة لا يريد الشراء، فجائز، لأنه نفع مسلم من غير إضرار بغيره إذ كان شراء الغير بالقيمة. وأما حكم البيع الذي عقد بطريق النجش فالبيع صحيح مع الإثم عند الحنفية والشافعية، وفي الراجح من مذهب الحنابلة. وقال أهل الظاهر: البيع باطل رأساً. وبه قال مالك وأحمد في رواية. وإن كان في البيع غبن فاحش، فللمشترى خيار الفسخ عند المالكيةوالحنابلة، سواء أكان ا النجش بمواطأة من البائع أم لم يكن. أما عندالحنفية، فلاخيار للمشترى مطلقاً، وهو قول الشافعية في رواية. وعنهم رواية أخرى أن للمشترى الخيار إن كان النجش بمواطأة من البائع.
قرارات وتوصيات مجمع الفقه الإسلامي (ص: 83)[قرار رقم:۷۳(۸/۴)بشان عقد المزایدۃ]
النجش حرام، ومن صوره :
أ- أن يزيد في ثمن السلعة من لا يريد شراءها ليغري المشتري بالزيادة .
ب- أن يتظاهر من لا يريد الشراء بإعجابه بالسلعة وخبرته بها، ويمدحها ليغرّ المشتري فيرفع ثمنها .
ج - أن يدعي صاحب السلعة، أو الوكيل، أو السمسار، ادعاء كاذباً أنه دفع فيها ثمن معين ليدلس على من يسوم .
د - ومن الصور الحديثة للنجش المحظورة شرعاً اعتماد الوسائل السمعية، والمرئية، والمقروءة، التي تذكر أوصافاً رفيعة لا تمثل الحقيقة، أو ترفع الثمن لتغر المشتري، وتحمله على التعاقد .
دوسری صورت یہ ہے کہ حقیقت کے برخلاف ریویو میں ایسی تنقیص بیان کی کہ جس کے نتیجے میں تاجر یا خدمات مہیا کرنے والے کا کاروبار متاثر ہوگیا ۔
حکم:مذکورہ صورت میں غلط ریویو دینے والا غلط بیانی کی وجہ سےبہر حال گناہ گار ہوگا،البتہ غلط ریویو دینے والے پر اس وجہ سے کوئی ضمان لازم نہیں آئے گا،اس لیےکہ اس کی طرف سے فروخت کنندہ کو براہ راست حقیقی نقصان نہیں پہنچا،یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے غبن فاحش مع التغریر کی صورت میں بھی فقط اس وقت خیار فسخ ِعقد کو درست قرار دیا ہے جب کہ متعاقدین یعنی فروخت کنندہ اور خریدار میں سے کوئی ایک دوسرے کو دھوکہ دے یا دلال دھوکہ دے،اگر متعاقدین کے علاوہ کی جانب سے تغریر ہو تو اگرچہ ایسا کرنا ناجائز ہے لیکن اس کی وجہ سے کوئی ضمان لازم نہیں ہوگا۔البتہ مذکورہ صورت میں اگر یقین سے ثابت ہوجائے کہ غلط ریویو کی وجہ سےکوئی واقعی حقیقی نقصان ہوا ہے تو تسبب یعنی نقصان کا سبب بننے کی وجہ سے ضمان لازم ہوگا،لیکن یہ ثابت کرنامشکل ہے کہ واقعی ضرر ہوا ہے اور اس غلط ریویو ہی کی وجہ سے ہوا ہے،لہٰذا ضمان کا حکم بغیر ثابت کیے نہیں لگے گا۔
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 257)
(سئل) في رجل باع من آخر عدة جمال وأمتعة معلومات بثمن معلوم من الدراهم بناء على قول المشتري له أنهما يساويان في الثمن المذكور ثم ظهر وتبين أنهما يساويان أكثر بقدر العشر في الجمال ونصف العشر في الأمتعة وفيه غبن فاحش ويريد البائع استرداد المبيع بخيار الغبن المذكور بعد ثبوت الغبن والتغرير بالوجه الشرعي فهل له ذلك؟
(الجواب) : نعم ولا رد بغبن فاحش هو ما لا يدخل تحت تقويم المقومين في ظاهر الرواية وبه أفتى بعضهم مطلقا كما في القنية ويفتى بالرد رفقا بالناس وعليه أكثر روايات المضاربة إن غره أي غر المشتري البائع وبالعكس أو غره الدلال فله الرد وإلا فلا وبه أفتى صدر الإسلام وغيره وتصرفه في بعض المبيع قبل علمه بالغبن غير مانع منه فيرد مثل ما أتلفه ويرجع بكل الثمن على الصواب. اهـ. علائي على التنوير من المرابحة والتولية وأجاب قارئ الهداية إذا اشترى بثمن فيه غبن فاحش وكان البائع غره بأن قال أعطيت فيه كذا فاشتراه بناء على إخباره ثم تبين الغبن الفاحش له الرد أما إذا كان ما أخبره به هو قيمته فليس له الرد وإن تبينكذب البائع فيما أخبره.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 143)
وقال (إن غره) أي غر المشتري البائع أو بالعكس أو غره الدلال فله الرد (وإلا لا) وبه أفتى صدر الإسلام وغيره.
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 143)
(قوله: أو غره الدلال) قال الرملي: مفهومه أنه لو غره رجل أجنبي غير الدلال لا يثبت له الرد، بقي ما لو غر المشتري البائع في العقار فأخذه الشفيع هل للبائع أن يسترد منه ينبغي عدمه؛ لأنه لم يغره وإنما غره المشتري، وتمامه في حاشيته على البحر.
قرارات وتوصيات مجمع الفقه الإسلامي (ص: 83)[قرار رقم:۷۳(۸/۴)بشان عقد المزایدۃ]
النجش حرام، ومن صوره :
أ- أن يزيد في ثمن السلعة من لا يريد شراءها ليغري المشتري بالزيادة .
ب- أن يتظاهر من لا يريد الشراء بإعجابه بالسلعة وخبرته بها، ويمدحها ليغرّ المشتري فيرفع ثمنها .
ج - أن يدعي صاحب السلعة، أو الوكيل، أو السمسار، ادعاء كاذباً أنه دفع فيها ثمن معين ليدلس على من يسوم .
د - ومن الصور الحديثة للنجش المحظورة شرعاً اعتماد الوسائل السمعية، والمرئية، والمقروءة، التي تذكر أوصافاً رفيعة لا تمثل الحقيقة، أو ترفع الثمن لتغر المشتري، وتحمله على التعاقد .
ریویو کی ایک جدید صورت :
آج کل ریویو کی ایک اورصورت بھی رائج ہے جسے پیڈ ریویو(Paid review) یا پروڈکٹ رینکنگ (Product Ranking ) کہتے ہیں ،اس میں یہ کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی کمپنی اپنی مصنوعات یا خدمات کو سرچ انجن وغیرہ پر سب سے اوپر دکھانے کے لیےکسی دوسری کمپنی کو ہائر کرتی ہے کہ وہ پروڈکٹس پر مثبت ریویوز دیں تاکہ سرچ انجن پر سب سے زیادہ اوپر نظر آئیں اور زیادہ سےزیادہ لوگ ان ریویوز پر اعتماد کرکے ان سے خریداری کریں،یہ صورت ریویوز لینے اوردینے کی ناجائز ہے،اس لیے کہ مذکورہ طریقہ کار میں مصنوعی طریقے سے فالورز بڑھانا اور لوگوں کو یہ باورکرانا ہے کہ یہ ریویورز(Reviewers) حقیقی کسٹمرز ہیں اور ان کے یہ حقیقی ریویوز(Reviews) ہیں،جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ بالعوض یہ ریویوز حاصل کیے جاتے ہیں،ایسا کرنا دھوکہ دہی،جعلسازی اورغلط بیانی کے زمرے میں آتاہے،لہٰذا پیڈ ریویویا پروڈکٹ رینکنگ کے لیے مذکورہ طریقہ استعمال کرنا ناجائز ہے،اس کی اجرت دینا اور لینا بھی ناجائز ہے۔رہی بات پیڈ ریویوز کی وجہ سے اگر حقیقی کسٹمر کا نقصان ہوا تو اس کا حکم کیا ہوگا؟اس حوالے سے تفصیل یہ ہے کہ چونکہ پیڈ ریویوز دینے والا اپنی آزادانہ رائے کی بنیاد پر ریویو نہیں دے رہا ہوتا بلکہ فروخت کنندہ کی طرف سے فروخت کنندہ کےلیے اس کی مرضی و منشاء کے مطابق بالعوض ریویو دے رہا ہوتا ہے،لہٰذا یہ ایسا ہے جیسا کہ فروخت کنندہ خود وہ دعویٰ کر رہا ہو جو ریویو میں بتایا جارہا ہے،مذکورہ صورت میں تغریر(دھوکہ دہی)فروخت کنندہ کی طرف سے ہے جوکہ اس ریویو کی بنیاد پر بعد میں ہونے والی خرید وفروخت میں بحیثیت فروخت کنندہ متعاقد ہے،اور اصول یہ ہے کہ متعاقدین میں سے اگرکوئی تغریر سے کام لے اور یہ تغریر مع غبن فاحش ہو تو ایسی صورت میں دوسرے فریق کو خیار فسخ حاصل ہوتا ہے،لہٰذا مذکورہ صورت میں خریدار کو خیار فسخ حاصل ہوگا ۔فقہائے کرام رحمہم اللہ نے اندازے سے مختلف اموال میں غبن فاحش کی مختلف مقدار بیان کی ہیں،چنانچہ عروض میں پانچ فیصد،حیوانات میں دس فیصداور زمین میں بیس فیصد نقصان غبن فاحش ہےاور اس سے کم غبن یسیر ہے۔مختلف اموال میں یسیر اور فاحش کی حد مختلف مقرر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ مال کی جس قسم میں تعامل یعنی لوگوں کا لین دین زیادہ ہے،اس میں کم نقصان بھی زیادہ ہے،لہٰذاعروض میں چونکہ سب سے زیادہ تعامل ہے،اس لیے اس میں پانچ فیصد نقصان بھی زیادہ ہے ،اس کے بعد حیوانات میں تعامل زمین سے زیادہ ہے لہٰذا اس میں غبن فاحش کی حد زمین سے کم ہےوغیرہ۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 4)
وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية وسيجيء.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 4)
(قوله مقصود من العين) أي في الشرع ونظر العقلاء، بخلاف ما سيذكره فإنه وإن كان مقصودا للمستأجر لكنه لا نفع فيه وليس من المقاصد الشرعية، وشمل ما يقصد ولو لغيره لما سيأتي عن البحر من جواز استئجار الأرض مقيلا ومراحا، فإن مقصوده الاستئجار للزراعة مثلا، ويذكر ذلك حيلة للزومها إذا لم يمكن زرعها تأمل.
(شرح القواعد الفقهية، 1/55، دار القلم)
العبرة في العقود للمقاصد والمعاني لا للألفاظ والمباني۔۔۔ والمراد بالمقاصد والمعاني: ما يشمل المقاصد التي تعينها القرائن اللفظية التي توجد في عقد فتكسبه حكم عقد آخر كما سيأتي قريبا في انعقاد الكفالة بلفظ الحوالة، وانعقاد الحوالة بلفظ الكفالة، إذا اشترط فيها براءة المديون عن المطالبة، أو عدم براءته.
وما يشمل المقاصد العرفية المرادة للناس في اصطلاح تخاطبهم، فإنها معتبرة في تعيين جهة العقود، فقد صرح الفقهاء بأنه يحمل كلام كل إنسان على لغته وعرفه وإن خالفت لغة الشرع وعرفه: (ر: رد المحتار، من الوقف عند الكلام على قولهم: وشرط الواقف كنص الشارع) .
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (7/ 169)
وفسر المؤلف ما يتغابن الناس فيه بما يدخل تحت تقويم المقومين فعلم منه أن الغبن الفاحش ما لا يدخل تحت تقويم المقومين وهذا هو الأصح كما في المعراج وفي السراج الوهاج معزيا إلى الخجندي الذي يتغابن الناس في مثله نصف العشر أو أقل منه فإن كان أكثر من نصف العشر فهو مما لا يتغابن الناس فيه وقال نصير بن يحيى: ما يتغابن الناس فيه في العروض نصف العشر وفي الحيوان العشر وفي العقار الخمس وما خرج عنه فهو ما لا يتغابن الناس فيه ووجهه أن التصرف يكثر وجوده في العروض ويقل في العقار ويتوسط في الحيوان وكثرة الغبن لقلة التصرف اهـ.
محمد حمزہ سلیمان
دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی
۲۲.ربیع الثانی۱۴۴۶ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |