03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مختلف ورثاء کے درمیان والد کی متروکہ جائیداد کی تقسیم کا حکم
85169میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میرے والد صاحب جناب حاجی شہر یار خان نے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد ومکانات وغیرہ کے پانچ حصے کیے تھے، جس میں سے پانچواں حصہ اپنے لئے رکھا تھا ،جو کہ جائیداد میں سب سے بہتر تھا، باقی چار حصے اپنے بیٹوں کو دیئے، جس میں سے ایک حصہ محمد ظاہر شاہ خان بیٹے کو دیا، دوسرا حصہ سطان زیب خان، تیسرا حصہ واحد شاہ خان کو دیا اور چوتھا حصہ جہانزیب خان ( مرحوم ) کو دیا،جو کہ اس سے پہلے والد صاحب کی زندگی میں ہی وفات پا گیا تھا،اس کے بعد اس کے بیٹے محمد زیب اور اس کی والدہ ناہید خان کو دیے دیا، جبکہ محمد زیب بہت چھوٹا تھا اور ہماری طرح اس کو بھی اس کے حصے کا مکمل تصرف دیا گیا، جبکہ زوجہ اول واعلہ بی بی اور دو بیٹیاں بہری فلک اور سعدہ بی بی جن کی والدہ وفات پاچکی تھی اور زوجہ ثالث لائق بیگم اور ان کی دو بیٹیوں سارہ اور بلقیس ان سب کو کوئی شرعی حصے نہیں دیئے گئے ۔ والد صاحب حاجی شہریار خان نے تمام جائیداد کا بٹوا راہ تقریباً 1996-97 میں کیا تھا، پھر انہوں نے وہ پانچواں حصہ مورخہ 1999-10-11 میں ایک اسٹامپ پیپر کے ذریعے اپنی زوجہ ثالث لائق بیگم اور ان کی بیٹیوں سارہ اور بلقیس کے نام لکھ دیا، جس میں دو گواہان بھی تھے گواہ نمبر (۱) عبدالرحیم جس نے والد صاحب کی زندگی میں رجوع کر کے اپنے دستخط کو اشٹام پیپر سے کاٹ دیا اور دوسرا گواه (۲) قاضی حبیب الرحمن تھا ،جو کہ نواب دیر کے دور میں قاضی بھی رہ چکا تھا بجائے گواہ کہ اختلافی نوٹ لکھا اور سورۃ النساء کا حوالہ دیا اور یہ بھی لکھا کہ آپ کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں اور ہیں اور وراثت موت کے بعد ہوتی ہے، جو کہ تحریری طور پر اسٹام میں واضح ہے ۔ ہمیں ان اختلافی نوٹ وغیرہ کے والد صاحب کے انتقال کے بعد پتہ چلا والد صاحب نے اپنی زندگی میں اس پانچوں حصے کا تصرف کسی کو نہیں دیا تھا، جس طرح ہمیں تصرف دیا تھا، محمد زیب کو اپنا حصے کا تصرف دیا تھا ،حالانکہ اس کے والد بھی وفات پاچکے تھے اس طرح تصرف نہ دینے کے سب لوگ گواہ بھی ہیں، جس طرح محمد زیب کو تصرف دیا گیا تھا، اس کا سارا گاؤں گواہ ہے، اگر والد صاحب ان کو دل سے پانچواں حصہ دینا چاہتا تو وہ قانون اور شریعت سے بھی واقف تھا تو ان کو کم از کم پشاورمیں حیات آباد کا مکان ان کے نام کرتے ، حالانکہ زوجہ حاجی شہر یار خان لائق بیگم نے اسی وقت کافی کوشش کی کہ حیات آبادکا مکان میرے اور میری بیٹیوں کے نام کر دیں، لیکن مرتے دم تک اُس کو اس کے نام نہیں کیا ۔ حالانکہ اس پر آپس میں گفٹ کرنے پر کوئی سرکاری خرچہ بھی نہیں آتا، والد صاحب کے حیات میں محمد ظاہر شاہ خان پشاور مکان کا کرایہ لا کر والد صاحب کے حوالے کرتا تھا، ایک بار بھی والد صاحب نے اس کو لائق بیگم کو کرایہ دینے کے لئے نہیں کہا تھا ،مورخہ 01-01-2002 کو والد صاحب کا انتقال ہوگیا، والد صاحب کے انتقال کے بعد بھی ظاہر شاہ خان کرا یہ لا کر کچھ لائق بیگم کو اور کچھ و اعلہ بی بی کو بطور خرچہ دیا کرتا تھا، اس کے بعد صورت حال یہ ہوئی لائق بیگم نے کہا کہ ہم حیات آباد پشاور مکان کا فروخت کرنا چاہتے ہیں، میں نے اپنے بھائیوں سے صلاح مشورہ کیا کہ لائق بیگم کی بیٹی سارہ کی کوئی منگنی یا شادی ہو تو پھر اس وقت فروخت کرنا مشکل ہوگا، دوسری بات یہ کہ بلقیس گردوں میں پتھری وغیرہ کی وجہ سے بیمار تھی، اُس کے لئے بھی اکثر ایمر جنسی میں آپریشن کو ضرورت ہوتی تھی، اس کے لئے بھی اخراجات کی ضرورت ہوتی تھی، بھائیوں سے صلاح مشورہ کر کے ان کو راضی کیا اور کہا کہ یہ والدہ ہے، بہنیں ہیں تو یہ سب دل میں لالچ نہ رکھتے ہوئے مکان مذکورہ کو فروخت کرنے کیلئے راضی ہو گئے، اس کو فروخت کرنے کے لئے وراثت سرٹیفیکیٹ certificatesuccession بنوانا لازمی تھا جو کہ سینئر سول حج کے ذریعے سے بنوایا جاتا ہے، جو کہ ان سب ورثاء کی طرف سے بذریعہ پاور آف اٹارنی سینئر سول جج کی عدالت میں وراثت سرٹیفیکیٹ کے درخواست دائر کیا گیا، اس کے بعد اخبارات میں اشتہارات دیا گیا کہ ہم سب اس کے قانونی اور شرعی ورثاء ہیں کہ علاوہ کوئی وراث ہے تو آکر سینئر سول جج کی عدالت سے رجوع کرے اس پروسس میں 4 ماہ گزر گئے، اس کے بعد ہمیں وراثت سرٹیفیکیٹ دیا گیا، جس میں اس مکان کے سارے ور ثاء کا نام اور حصے لکھے گئے ہیں جو کہ سرٹیفیکیٹ میں درج ہیں اور سرٹیفیکیٹ لف ہے، پھر مکان ہذا کی فروختگی کے لئے سارے ورثاء کی طرف سے مجھے پاور آف اٹارنی دیا گیا، تقریباً 2011 میں مبلغ رقم (55 لاکھ روپے ) میں فروخت کر دیا گیا، اس کے بعد کچھ رقم لائق بیگم کی بیٹی سارہ کے منگنی اور شادی پر لگائی گیا، جس کا حساب کتاب سلطان زیب خان کے پاس موجودہے، باقی ماندہ رقم میرے پاس نقدی کی صورت میں موجود ہے۔ والد صاحب کی وفات ہو جانے کے بعد ہم نے مشورہ کیا کہ اگرچہ سوتیلی ہے، لیکن پھر بھی والدہ اور بہنیں ہیں، لہذا تین قطعہ اراضی تھی، ایک شالی زار تھی ، دوسرا بارانی ، تیسری جس کو ہم فقیری کہتے ہیں، جس سے بہت محدود آمدن آتی ہے، اگر ہم اس کو تقسیم کرلیں گے تو ان لوگوں کا خرچہ پھر مشکل سے چلے گا، لہذا جب تک دونوں بہنیوں کی شادیاں نہیں ہو جاتیں ان کے پاس رہنے دیتے ہیں اور نقد خرچہ بھی ساتھ اس مکان کے پیسوں سے دیتے رہے گے، لیکن ان تینوں قلعوں کو فروخت نہیں کریں گے صرف آپ لوگوں کو اپنی طرف سے خرچہ کے لئے آمدن دیتے رہے گے۔ میں اسلام آباد میں رہتا ہوں، کئی بار میں نے کہا تھا کہ بغیر کسی خرچہ کے میرے ساتھ رہیں اور ساتھ نقد بھی دیا کروں گا، لیکن وہ میرے پاس کچھ عرصہ رہے اور مستقل رہنے کے لئے تیار نہیں تھے، لہذا اُسی وقت میرا ملازم تھا،مسمی شیر جان اس کو میں نے کہا تھا کہ ان تینوں جگہوں کا خیال رکھے اور آمدن لاکر ان کو دیتا رہے، اس کے کچھ عرصہ بعد ایک بہن سارہ جو کہ لائق بیگم کی بیٹی ہے، منگنی ہوئی، پھر شادی ہوئی اور اُس کے بعد یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا، اس مذکورہ صورت حال کے بعد مفتیان کرام صاحبان سے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات قرآن سنت کی روشنی مطلوب ہیں:

  1. کیا والد صاحب کا اپنی زندگی میں تصرف کرنا کہ بیٹوں کو حصے دے دیئے اور زوجات اور بنات کا شرعی حصے نہ دینا تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
  2. کیا میرے والد صاحب نے اپنی زمین کے بٹوارے میں اپنے دو بیویوں واعلہ بی بی اور لائق بیگم اور چار بیٹیوں بہری فلک ، سعدہ بی بی، سارہ بی بی اور بلقیس کو شرعی حصے نہیں دیئے، کیا ہمیں اپنے اپنےحصوں میں سے ان کو کچھ دینا بنتا ہےیا نہیں؟
  3. مسماۃ لائق بیگم چاہتی ہے کہ فقیری زمین فروخت کردی جائے تو اس صورت میں اگر وہ زمین فروخت ہوتی ہے تو والدہ واعلہ بی بی اور  سوتیلی بہنیں بہری فلک، سیدہ بی بی ، بھائی واحد شاہ خان مرحوم ، بھائی محمد ظاہر شاہ خان اور سلطان زیب خان کا اس میں کوئی حصہ بنتا ہےیا نہیں؟یہ زمین اگرچہ لائق بیگم کے نام ہے، مگر زندگی میں ان کو قبضہ نہیں دیا گیا تھا۔
  4. جو اسٹامپ پیپر اور ایک سادہ لیٹر والد صاحب نے زوجہ ثالثہ لائق بیگم اور ان کی دو بیٹیوں سارہ اور بلقیس کے نام بنوایا تھا، اس میں اپنے لیے جو پانچواں حصہ رکھا تھا، سارا ان کے نام کر دیا تھا۔ البتہ ان کو قبضہ نہیں دیا گیا تھا، صرف کاغذات میں لکھ کر دیا تھا، آیا مذکورہ صورتِ حال کی روسے ان کا تصرف جائز تھا ، کیا اس تصرف کے بعد شرعا لائق بیگم سارہ اور بلقیس کی ملکیت میں یہ ساری جائیداد ہو چکی تھی یا نہیں؟اگر ان کی ملکیت میں یہ پانچواں حصہ منتقل نہیں ہوا تھا، جس میں حیات آباد پشاور والا مکان بھی شامل ہے تو اس مکان کی رقم (55 لاکھ روپے )کے کون سے ورثاء حقداران ہے۔
  5.  بھائی جہانزیب خان والد صاحب کی زندگی میں تقریباً 1985ء میں فوت ہو گئے تھے، اس کے بعد 1987-1986 میں جہانزیب خان مرحوم کی زوجہ ناہید خان کو میرے والد نے ایک خط دیا، جس میں لکھا گیا کہ میرے مرنے کے بعد مسمی جہانزیب خان مرحوم کا بھی حصہ ہوگا، پھر تقریباً 97-1996 میں جب والد صاحب نے جائیداد کا بٹوارہ کیا تو اس وقت مسمی جہانزیب خان کی بیوہ کو اور اُس کے بیٹے محمد زیب کو دیگر چار حصوں کی طرح پانچواں حصہ دیا گیا اور ساتھ ہی ان کو قبضہ بھی دے دیا گیا تھا،  تو ابھی اس وقت باقی ماندہ وراثت میں مرحوم جہانزیب خان کی بیوی اور بیٹے کووراثت میں حصہ ملنا چاہیےیا نہیں؟جبکہ مرحوم کا انتقال والد صاحب کی زندگی میں ہو چکا تھا۔

6- سوال کے ساتھ منسلک تحریریں ایک سادہ اور ایک اسٹامپ پیپر پر درج ہیں اس کی شرعی حیثیت کیاہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

  1. اصولی طور پر زندگی میں آدمی اپنے مال کا خود مالک ہوتا ہے اور وہ اپنے مال کو کسی بھی جائز مصرف پر خرچ کرنے میں شرعاً بااختیار ہوتا ہے، لہذاآپ کے والد کو شرعا اختیار تھاکہ وہ جائیداد چاہیں اپنے پاس رکھیں اور جتنی چاہیں اپنی  اولاد کے درمیان تقسیم کریں، البتہ اولاد کے درمیان تقسیم کی جانے والی جائیداد میں شریعت کا اصول یہ ہے کہ بیٹے اور بیٹیوں کو برابر حصہ دیا جائےیا کم از کم بیٹی کو بیٹے کی بنسبت آدھا حصہ دینا ضروری ہے، نیز کسی بیٹےیا بیٹی کو اس کی خدمت، دینداری یا مالی تنگی کے باعث کچھ زیادہ حصہ دینے کی بھی گنجائش ہے، بشرطیکہ دوسرے ورثاء کو محروم کی نیت نہ ہو۔ نیز اس صورت میں اولاد کو دینے سے پہلے بیویوں کو بھی کم از کم آٹھواں حصہ دینا ضروری ہے، اس کے بعد بقیہ مال اولاد کے درمیان تقسیم کیا جائے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ کے والد کا اپنی جائیداد صرف بیٹوں کے درمیان تقسیم کرنا اور بغیر کسی وجہ کے اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو اس مال سے مکمل طور پر محروم رکھنا درست نہیں تھا، کیونکہ شریعت میں اولادکے درمیان برابری کا حکم دیا گیا ہے، اس پر حدیثِ پاک میں بھی تنبیہ فرمائی گئی ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 127) دار الكتب العلمية،بيروت:

(وأما) كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا يفضل الذكر على الأنثى وقال محمد العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث للذكر مثل حظ الأنثيين كذا ذكر القاضي الاختلاف بينهما في شرح مختصر الطحاوي وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض.

 

وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال النبي - عليه الصلاة والسلام - فأرجعه وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى ولو نحل بعضا وحرم بعضا جاز من طريق الحكم لأنه تصرف في خالص ملكه لا حق لأحد فيه إلا أنه لا يكون عدلا سواء كان المحروم فقيها تقيا أو جاهلا فاسقا على قول المتقدمين من مشايخنا وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة.

لسان الحكام (ص: 371) لابن الشِّحْنَةالثقفي الحلبي ،  البابي الحلبي – القاهرة:

نوع الأفضل في هبة الابن والبنت التثليث كالميراث وعند أبي يوسف رحمه الله تعالى التنصيف وهو المختار ولو وهب جميع ماله من ابنه جاز وهو آثم نص عليه محمد رحمه الله تعالى ولو خص بعض أولاده لزيادة رشده فلا بأس به وإن كانوا سواء في الرشد لا يفعله.

  1. زندگی میں آدمی اپنی اولاد کو جو کچھ مالک بنا کر دیتا ہے اس کا حکم ہبہ یعنی گفٹ کا ہے اور ہبہ قبضہ کرنے سے مکمل اور تام ہو جاتا ہے اور موہوب لہ اس چیز کا شرعا مالک بنا جاتا ہے، لہذا اگر آپ کے والد مرحوم اپنی مرضی سے اپنی جائیداد بیٹوں کو مالکانہ طور پر دے کر گئے ہیں اور اس جائیداد کا قبضہ بیٹوں کو بھی دے دیا گیا تھا، جیسا کہ سوال میں مذکور ہے تو اس صورت میں بیٹوں کے ذمہ اس جائیداد میں سے بیٹیوں یا مرحوم کی بیویوں کو حصہ دینا شرعا لازم نہیں، البتہ اگر  بیٹے اپنی خوشی سے مرحوم کی بیویوں اور بیٹیوں کو ملنے والا وراثتی حصہ (جو مرحوم کی وفات کے بعد ان کو ملنا تھا) ان کے سپرد کریں تو بہت اچھا ہے، اس صورت میں مرحوم کے ساتھ بھی ان شاء اللہ آخرت میں نرمی کا معاملہ ہو گا اور مرحوم کی بیویوں اور بیٹیوں کو یہ حصہ دینے پر بیٹوں کو اللہ تعالیٰ سے بہت بڑا اجرو ثواب ملے گا۔

الفتاوى الهندية (4/ 374) دار الفكر، بيروت:

أما تفسيرها شرعا فهي تمليك عين بلا عوض، كذا في الكنز. وأما ركنها فقول الواهب: وهبت؛ لأنه تمليك وإنما يتم بالمالك وحده، والقبول شرط ثبوت الملك للموهوب له۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وأما حكمها فثبوت الملك للموهوب له غير لازم حتى يصح الرجوع والفسخ وعدم صحة خيار الشرط فيها فلو وهبه على أن للموهوب له الخيار ثلاثة أيام صحت الهبة إن اختارها قبل أن يتفرقا.

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (2/ 360) دار إحياء التراث العربي:

في خزانة الفقه اثني عشر ينقطع به حق الرجوع إذا كان الموهوب له ذا رحم محرم منه أو كانت زوجته أو كان زوجها أو كان أجنبيا وعوضها، وقال: خذ هذا عوض هبتك أو بدلا عنها، أو جزاء عنها أو مكافأة عنها أو في مقابلها، أو مات أحدهما أو خرج عن ملكه أو زاد فيها زيادة متصلة بأن كان عبدا صغيرا فكبر، أو كان مهزولا فسمن أو كانت أرضا فبنى فيها أو كان ثوبا فخاطه أو صنعه صنعا يزيد أو غيره بأن كان حنطة فطحنها أو دقيقا فخبزه أو سويقا فلته بسمن، أو كان لبنا فاتخذه جبنا أو سمنا أو أقطا أو كانت جارية فعلمها القرآن أو الكتابة أو المشاطة.

  1. سوال میں تصریح کے مطابق اگر مرحوم نے مذکورہ زمین کا لائق بیگم کو باقاعدہ قبضہ نہیں دیا گیا تھا، بلکہ صرف قانونی کاغذات میں یہ زمین لائق بیگم کے نام کروائی گئی تھی تو صورت میں مرحوم کی زندگی میں لائق بیگم اس زمین کی شرعا مالک نہیں بنی تھی، لہذا یہ زمین مرحوم کی زندگی میں بدستور ان کی ملکیت میں رہی اور اب ان کی وفات کے بعد یہ زمین کے تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہو گی۔

اللباب في شرح الكتاب (2/ 171) المكتبة العلمية، بيروت:

(الهبة) لغة: التبرع والتفضل بما ينفع الموهوب مطلقاً، وشرعا: تمليك عين بلا عوض، و (تصح بالإيجاب والقبول)، لأنها عقد كسائر العقود، إلا أن الإيجاب من الواهب ركن، والقبول ليس بركن استحساناً.

الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 222) دار احياء التراث العربي – بيروت:

ولنا قوله عليه الصلاة والسلام: "لا تجوز الهبة إلا مقبوضة" والمراد نفي الملك، لأن الجواز بدونه ثابت، ولأنه عقد تبرع، وفي إثبات الملك قبل القبض إلزام المتبرع شيئا لم يتبرع به، وهو التسليم فلا يصح.

  1. اسٹامپ پیپر پر لائق بیگم اور ان کی دو بیٹیوں سارہ اور بلقیس کے نام جو جائیداد لکھ کر دی گئی اس کا حکم بھی یہی ہے کہ اگر ان کو زندگی میں قبضہ نہیں دیا گیا تھا، جیسا کہ سوال میں تصریح ہے تو اس صورت میں یہ جائیداد شرعا ان میں سےکسی کی ملکیت نہیں بنی، اس لیے یہ جائیداد بھی اب ان کی وفات کے بعد یہ زمین کے تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہو گی۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں حیات آباد پشاور والا مکان میں بھی تمام ورثاء اپنے شرعی حصوں کے مطابق حق دار ہوں گے۔

مجلة الأحكام العدلية (ص: 313) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:

المادة (1592) إذا قال أحد في حق الحانوت الذي في يده بموجب سند: إنه ملك فلان،

وليس لي علاقة فيه واسمي المحرر في سنده مستعار، أو قال في حق حانوت مملوك اشتراه بسند من آخر: إنني كنت قد اشتريته لفلان , وإن الدراهم التي أديتها ثمنا له هي من ماله , وقد حرر اسمي في سنده مستعارا. يكون قد أقر بأن الحانوت ملك ذلك الشخص في نفس الأمر.

مجلة الأحكام العدلية (ص: 313) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:

المادة (1593) إذا قال أحد: إن الدين الذي هو في ذمة فلان بموجب سند , وهو كذا درهما , وإن كان قد تحرر باسمي إلا أنه لفلان واسمي الذي تحرر في السند مستعار يكون قد أقر بأن المبلغ المذكور في نفس الأمر هو حق لذلك.

  1. آپ کے بھائی جہانزیب خان  چونکہ والد صاحب کی زندگی میں وفات پا چکے تھے اور شریعت کا اصول یہ ہے کہ والد کی زندگی میں وفات پانے والی اولاد شرعی اعتبار سے اپنے والد کی میراث کی وارث نہیں ہوتی، کیونکہ وراثت میں قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار وارث نہیں ہوتے، اسی طرح یہاں بھی بیٹوں کی موجودگی میں پوتے وارث نہیں ہوں گے۔ 

صحيح البخاري (8/ 150) دار طوق النجاة:

عن ابن عباس رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ألحقوا الفرائض بأهلها، فما بقي فهو لأولى رجل ذكر»

الدر المختار وحاشية ابن عابدين(6/ 758) دار الفكر-بيروت:

وموضوعه: التركات، وغايته: إيصال الحقوق لأربابها، وأركانه: ثلاثة وارث ومورث وموروث. وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه.​​​​​​

حوالہ جات

۔۔۔

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

22/ربیع الثانی 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب