85209 | وقف کے مسائل | مدارس کے احکام |
سوال
کیا فرماتےہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ میں نے ایك مكان بنات كے مدرسہ اور اپنے بھائی قاری محمد جمیل كی رہائش كے لیے وقف كیا اور اپنے بھائی قاری محمد جمیل كو مدرسہ كا متولی بنایا۔
1. اب میری اجازت كے بغیر اس بنات كے مدرسہ كا متولی كسی اور كو بنانا۔
2. یا مدرسہ كو كسی ٹرسٹ یا مركز كے تحت كرنے كی اجازت ہے؟ جبكہ میں (واقف)كی مرضی اس میں شامل نہیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
حکومت کے ہاں رجسٹریشن کروانا وقف کی حفاظت کا ایک قانونی ذریعہ ہے ، جس میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے، اس لیے مدرسہ کو رجسٹرڈ کرانا جائز ہے اور رجسٹرڈ کرانے سے وقف پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی اس سےوقف کا متولی بدل جاتاہے ۔ البتہ صورت مسئولہ میں آپ نے مکان جس مقصد کے لیے وقف کیا تھا ،اور جو کچھ آپ نے اس وقت تحریری طور پر طے کیا تھا،اسی کا اعتبار ہوگا ۔وقف کے وقت اگرآپ نے اس کو تاحیات متولی بنایا تھا اور اب بھی اس میں وقف کو مکمل طور پر سنبھالنے کی اہلیت وصلاحیت ہے،تو پھر مجلس شوری اس کی پابند ہے انہیں اس کو تبدیل کرنےکا اختیار حاصل نہیں الایہ کہ وہ کرپشن یا بدعہدی میں مشہورہوتو اسےہٹایا جاسکتاہے۔اور اگر آپ نے وقف کے وقت تحریری طور پر یا کسی طرح وقف کا مقصد بیان نہ کیا ،صرف آپ کی نیت اس طرح کی تھی تو اب آپ کی بعد والی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا،اسی طرح اگر مقرر کردہ متولی میں اہلیت وصلاحیت نہ ہو تو پھر مجلس شوری اس کی پابند نہیں ہے،اور کسی بھی معقول وجہ سے اس کوتبدیل کرسکتی ہیں۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی :شرط الواقف كنص الشارع، فيجب اتباعه ،كما صرح به في شرح المجمع للمصنف.
)رد المحتار: 4/ 495(
وقال :شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع ،وهو مالك، فله أن يجعل ماله حيث شاء، ما لم يكن معصية ،وله أن يخص صنفا من الفقراء ولو كان الوضع في كلهم قربة. (رد المحتار: 4/ 343)
وقال العلامۃ التمرتاشي رحمہ اللہ تعالی:(وينزع) وجوبا.(لو)الواقف. فغیرہ بالأولی (غیر مأمون) أو عاجزا، أو ظھر بہ فسق کشرب خمر ونحوہ.(تنویر الأبصار ،ص: 373)
وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی:قال في الإسعاف: ولا يولى إلا أمين قادر بنفسه أو بنائبه ؛لأن الولاية مقيدة بشرط النظر وليس من النظر تولية الخائن لأنه يخل بالمقصود، وكذا تولية العاجز ؛لأن المقصود لا يحصل به.( رد المحتار: 4/ 380)
وفي الفتاوی الھندیۃ:ولا يجوز تغيير الوقف عن هيئته فلا يجعل الدار بستانا ،ولا الخان حماما ،ولا الرباط دكانا، إلا إذا جعل الواقف إلى الناظر ما يرى فيه مصلحة الوقف، كذا في السراج الوهاج.
(الفتاوى الهندية:2/ 490)
وقال العلامۃ التمرتاشي رحمہ اللہ تعالی: فإذا تم ولزم ،لا یملک ولا یعار ولا یرھن . (تنویر الأبصار:539/6)
في الفتاوی التاتارخانیۃ :ولو جعل الواقف ولایۃ الوقف لرجل کانت الولایۃ لہ،کما شرط الواقف و لو أراد الواقف إخراجہ کان لہ .
(الفتاوی التاتار خانیۃ:58/8)
شمس اللہ
دارالافتاء جامعۃالرشید،کراچی
/22 ربیع الثانی،1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | شمس اللہ بن محمد گلاب | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |