85304 | طلاق کے احکام | طلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان |
سوال
ایک شخص کی بیوی جب بھی اپنے امی ابو کے گھر جاتی تو وہاں جا کر فون کرتی کہ میں رات وہاں ہی رہوں گی ،واپس نہیں آؤں گی۔ شوہر نے اسےبار بارسمجھایا،لیکن وہ اس طرح کرنے سےباز نہیں آئی،چنانچہ اس شخص کے ایک عالم دین دوست نےاسے یہ مشورہ دیا کہ انشاء اللہ کے ساتھ طلاق دے دو، بقول اس عالم دین کے ان شاءاللہ کے ساتھ نہ طلاق واقع ہوتی ہے اور نہ کوئی شرط لگتی ہے۔اس شخص نے ایسا ہی کیا اور یہ الفاظ کہے: اگر تم نے میری اجازت کے بغیر اپنے ابو کے گھر رات گزاری تو تمہیں ان شاء اللہ تین طلاق۔
اس کے بعد اس کی بیوی ڈرگئی اور اپنے والد کے گھر رات گزارنے سے پہلے اجازت لیتی تھی،لیکن جب یہ بات پورے خاندان میں پھیل گئی توسب یہ سمجھنے لگے کہ شرط لگی ہے،البتہ کسی کو انشاء اللہ کے لفظ کا پتا نہیں تھا ،لہذاجب بھی کوئی رشتہ دار اس شخص سے پوچھتا : تو نے بغیر اجازت کے تین طلاق کے الفاظ کہے ہیں؟ تو وہ یہ کہتا:ہاں،میں نے اس طرح کہا ہے ۔کیا اس طرح جھوٹی اقرار کرنے سے (کیونکہ بغیر ان شاءاللہ کے اس نے الفاظ نہیں کہے )حقیقتاً شرط لاگو ہو گی ؟
اسی طرح جب اس شخص کی بیوی ناراض ہو کر میکے چلی گئی ،تو خاندان کے افراد نے اس شخص سے پوچھا کہ اب تو وہ بغیر اجازت کے اپنے ابو کے گھر گئی ہے ؟ تو وہ کہنے لگا کہ میں نے دل میں اس کو اجازت دے دی تھی۔کیا دل میں اجازت سے یانیت کرنے سے اجازت ہو جاتی ہے ؟کیا اس کی بیوی اس کےلیےحلال ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسؤلہ میں اگر شوہر نے ان شاءاللہ کے ساتھ مشروط طلاق کےالفاظ کہے تھے اور بیوی نے بھی صاف سن لیے تھے تو یہ تعلیق درست نہیں ہوئی،لہذا خلاف ورزی پرطلاق واقع نہ ہوگی۔نیز شوہر سےلوگوں کے استفسارپراس کااجمالی طور پرصرف ہاں میں جواب دینےسے کوئی نئی شرط نہیں لگی ۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ دل میں اجازت دینے سے اجازت ہوجاتی ہےیا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ عام طورپر صرف دل سے اجازت کافی نہیں ،بلکہ زبان سے صراحت ضروری ہے ،تاہم چونکہ صورت مذکورہ میں ان شاءاللہ کی وجہ سے کوئی شرط نہیں لگی،لہذا اجازت ہویانہ ہوحکم پرکوئی فرق نہیں پڑتا۔
حوالہ جات
أخرج الإمام الترمذي في" السنن "(4/108)(الحدیث رقم: 1531)من حدیث ابن عُمر رضی اللہ عنھما أنَّ رَسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قال: من حَلفَ على يَمينٍ، فقال: إن شاء الله، فَلا حِنْثَ عَليْهِ».
وقال العلامۃ السرخسی رحمہ اللہ: لو قال لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق إن شاء الله، فدخلت الدار لم تطلق عندنا وهو قول ابن أبي ليلى أيضاً ؛لقوله عليه الصلاة والسلام :من حلف بطلاق أو عتاق ،واستثنى،فلا حنث عليه.(المبسوط للسرخسي: 30/166)
قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ:وأما مسائل النوع الثاني من الاستثناء، وهو تعليق الطلاق بمشيئة الله عزّوجل فنقول: إذا علق طلاق امرأته بمشيئة الله يصح الاستثناء، ولا يقع الطلاق، سواء قدم الطلاق على الاستثناء في الذكر بأن قال: أنت طالق إن شاء الله أو أخره عنه بأن قال: إن شاء الله تعالى فأنت طالق، وهذا قول عامة العلماء. ( بدائع الصنائع: 3/157)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ: (لا تخرجي) بغير إذني أو (إلا بإذني) أو بأمري أو بعلمي أو برضاي(شرط) للبر (لكل خروج إذن) إلا لغرق أو حرق أو فرقة.
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ:قوله :(شرط للبر لكل خروج إذن): لا يخفى أن اشتراط الإذن راجع لقوله إلا بإذني، أما ما بعده فيشترط فيه الأمر أو العلم أو الرضا. وإنما شرط تكراره؛لأن المستثنى خروج مقرون بالإذن، فما وراءه داخل في المنع العام؛ لأن المعنى :لا تخرجي خروجا إلا خروجا ملصقا بإذني .قال في النهر: ويشترط في إذنه لها أن تسمعه وإلا لم يكن إذناً ،وأن تفهمه فلو أذن لها بالعربية ولا عهد لها بها ،فخرجت حنثت، وأن لا تقوم قرينة على أنه لم يرد الإذن. (رد المحتار:3/759)
محمدشوکت
دارالافتاءجامعۃ الرشید،کراچی
23/ربیع الثانی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمدشوکت بن محمدوہاب | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |