03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدین کی زندگی میں جائیداد کی تقسیم
85213ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

 استفتاء بہت تفصیلی ہے،بنیادی نکات یہاں درج کیے جارہے ہیں:

1۔ جائیداد کی تقسیم کا مسئلہ ہے،دو بھائی اور دو بہنیں ہیں، والدین نے زندگی میں جائیداد دی ہے،جس کی تفصیل یہ ہے کہ والدہ کے پاس لاہور میں پلاٹ تھا،والد کے نام آبائی گھر  اور اسلام آباد میں فلیٹ ہے۔یہ سب تقریبا ایک ہی قیمت کے تھے،پھر پوری فیملی نئے گھر میں شفٹ ہوکر رہائش پذیر ہوگئی۔

2۔جون 2022 میں والدین نے اپنی حیات میں بچوں میں جائیداد اس طرح تقسیم کی کہ والدہ نے لاہور والا پلاٹ محمد فہد عمر کودیا۔والد نے آبائی گھر چھوٹے بیٹے کو دیا ،جبکہ اسلام آباد والا فلیٹ دونوں بیٹیوں میں آدھا آدھا تقسیم ہوگا۔پلاٹ اور آبائی گھر پر دونوں بیٹوں کا مکمل اختیار اور تصرف ہوگیا تھا۔

 3۔اکتوبر 2022میں والدہ کا انتقال ہوا۔مکان اپنے نام ٹرانسفر کروانے کےلیے میں لاہور گیا،مکان پہلے تمام ورثہ کے نام ٹرانسفر ہوکر پھر اکیلے میرے نام ٹرانسفر ہوا۔اس دوران چھوٹے بھائی کو یہ اعتراض ہوا کہ والد نے تقسیم کس طرح کی ہے کہ آپ کے پاس آنے والا لاہور کا پلاٹ قیمتی ہے، والد صاحب اس بات پر ناراض ہوئے،تاہم بعد میں چھوٹے بھائی مان گئے تھے اور میرے بار بار اصرار کے باوجود انہوں نے اس میں سے حصہ نہیں لیا کہ یہ بات اب ختم ہوچکی ہے۔

4۔اس بات کو چار سال گذر چکے ہیں،میری راہنمائی فرمائیں کہ مجھے اس صورتحال میں کیا کرنا چاہیے؟ جو کچھ ہوا ہے وہ ٹھیک ہوا ہے  یا اس میں کچھ غلط ہے؟اگر غلط ہے تو اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟میرے دل سے یہ شک ختم ہوجائے کہ میں نے اپنے بہن بھائیوں  کے ساتھ کچھ زیادتی کی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زندگی میں اولاد کو جائیداد دینا ہدیہ ہے،اور ہدیہ دینے میں برابری کا خیال رکھنا چاہیے،بلاوجہ کسی کو کم، کسی کو

زیادہ  دینا ناجائز ہے،البتہ کسی معقول وجہ ، مثلا دینداری،خدمت،تنگ دستی وغیرہ کی بناء پر کسی ایک کو زیادہ

دے دینا جائز ہے،یہاں والد صاحب نے بیٹوں کو الگ الگ برابر قیمت کا پلاٹ اور گھر دیے ہیں،جبکہ بیٹیوں کو مشترکہ طور پر ایک فلیٹ دیا ہے،اس میں اگر کوئی معقول وجہ نہ ہوتو برابری کا خیال رکھنا چاہیے تھا،تاہم چونکہ یہ تقسیم والدین کی جانب سے تھی ،اس لیے آپ اس کے پابند نہیں ہیں۔

اپنی زندگی میں اولاد کوجائیداد دینا ہبہ ہے،اور ہبہ میں قبضہ ضروری ہے،اس لیے  اگرآپ سب کو اپنے اپنے گھر /پلاٹ/فلیٹ کا اس طرح قبضہ ملا ہوکہ دینے والے نے  اس جائیداد سےاپنے تصرفات ختم کرکے ، اس کے تمام حقوق اور سارے متعلقہ امور سے دستبردار ہوکرآپ  کے حوالے کردیا ہو تویہ جائیدادآپ کی ملکیت میں آگئی ہے۔ اگر اس طرح نہ کیا ہوتو یہ جائیداد بدستور والدین کی ملکیت میں رہے گی۔

والد اگر زندگی میں اپنے بچوں کو کچھ دیتا ہے تو وہ "ہبہ" یعنی گفٹ ہوتا ہے۔اگر وہ چیز قابلِ تقسیم ہو تو اس میں ہبہ مکمل ہونے کے لیے تقسیم کر کے ہر ایک کو اس کے حصے کا قبضہ دینا بھی ضروری ہے، لیکن اگر وہ چیز ناقابلِ تقسیم ہو تو پھر تقسیم ضروری نہیں۔ ہر وہ چیز جس سے تقسیم کے بعد وہی نفع اٹھایا جاسکے جو تقسیم سے پہلے اٹھایا جاتا ہو، وہ قابلِ تقسیم کہلائے گی، اور جو چیز ایسی نہ ہو، وہ ناقابلِ تقسیم کہلائے گی۔

اس اصول کی روشنی میں آپ اور آپ کے بھائی کو الگ الگ فلیٹ/گھر مل گئے ہیں،جبکہ آپ کی بہنوں کو مشترکہ طور پر ایک فلیٹ ملا ہے ،لہذا اگر وہ اتنا چھوٹا ہے کہ اس کو اس طرح دو حصوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا کہ ہر حصے کے ساتھ باتھ روم ،کچن وغیرہ ضروری چیزیں بنائی جاسکیں تو ایسے میں یہ ہبہ تام ہوگیا ہے ،لہذا یہ مکان بہنوں کی ملکیت میں آگیا ہے، اوراگربڑا فلیٹ ہے کہ اس کو تقسیم کرنے کے بعد بھی ہر ایک حصہ قابل استعمال رہتا ہے تو پھر یہ ہدیہ درست نہیں ہوا ہے،لہذا والد صاحب کو چاہیے کہ یہ فلیٹ باقاعدہ تقسیم کرکے حوالے کرے۔

حوالہ جات

بدائع الصنائع (5/ 244):

وأما تفسير التسليم والقبض فالتسليم والقبض عندنا هو التخلية والتخلي، وهو أن يخلي البايع بين المبيع وبين المشتري برفع الحائل بينهما على وجه يتمكن المشتري من التصرف فيه، فيجعل البايع مسلما للمبيع، والمشتري قابضا له

المجلة (ص: 54):

 مادة 263: تسليم المبيع يحصل بالتخلية، وهو أن يأذن البائع للمشتری بقبض المبیع مع عدم وجود مانع من تسلیم المشتری إیاه.

مادة 270: العقار  الذي له باب وقفل كالدار والكرم، إذا وجد المشتري  داخله وقال له البائع  "سلمته إليك" كان قوله ذلك تسليما، وإذا كان المشتري خارج ذلك العقار فإن كان قريبا منه بحيث يقدر على إغلاق بابه وقفله في الحال يكون قول البائع للمشتري "سلمتك إياه" تسلیما أیضا، وإن لم يكن منه قريبا

بهذه المرتبة، فإذا مضى وقت يمكن فيه ذهاب المشتري إلى ذلك العقار و دخوله فیه یکون تسلیما.

المجلة (ص: 218):

 مادة 1131: قابل القسمة هو المال المشترك الصالح للتقسيم بحيث لا تفوت المنفعة المقصودة من ذلك المال بالقسمة.

شرح المجلة للعلامة الأتاسي (4/76):

شرح المادة 1131: وهي المنفعة التي کانت قبل القسمة، فلایقسم نحو الحمام، وإن کان ینتفع به بعد القسمة لربط الدواب ونحوه. قال في الدرر عازیاً للمجتبی: حانوت لهما یعملان فیه، طلب أحدهما القسمة، إن أمکن لکل أن یعمل فیه بعد القسمة ما کان یعمل فیه قبلها، قسم، وإلا، لا، اه، إلا إذا رضي الجمیع بقسمته، فإنها تصح. وهذا ظاهر في أن نحو الحمام والطاحون إذا کان کبیرا یمکن لکل من الشریکین الانتفاع به کما کان، بأن کان الحمام ذا خزانتین، والرحی ذا حجرین، یقسم. ولذا أفتی في الحامدیة بقسمة معصرة زیت لاثنین مناصفة وهي مشتملة علی عودین ومطحنین وبئرین للزیت قابلة للقسمة بلاضرر، مستدلا بما في خزانة الفتاوی: لایقسم الحمام والحایط والبیت الصغیر إذا کان بحال لو قسم،لایبقی لکل موضع یعمل فیه،

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

26/ ربیع الثانی 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب