85195 | جائز و ناجائزامور کا بیان | کھیل،گانے اور تصویر کےاحکام |
سوال
ہمارے ادارے کا تعلق پیپر اور بورڈ (کاغذی گتا) پر پرنٹنگ اور پیکیجنگ انڈسٹری سے ہے۔ ادارہ زیادہ تر جان بچانے والی، صحت کے فروغ اور اس سے منسلک دوائیوں (Pharmaceutical & Nutraceutical) کی پرنٹنگ اور پیکیجنگ کا کام کرتا ہے۔ ادارے کی مینجمنٹ پوری کوشش کرتی ہے کہ ہر قسم کے غیر شرعی اقدام سے مکمل بچا جائے۔ ادارہ پچھلے تقریبا ۴۰ سالوں سے اس کام سے منسلک ہے اور کبھی ایسے نئے کلائنٹ کو فوقیت نہیں دیتا اور پسند نہیں کرتا جو صرف کسی جاندار کی تصویروں والی پیکیجنگ استعمال کرتے ہیں۔ اسی لیے ادارہ اب ایسا کوئی پبلشنگ یا اشتہاری کمپنیوں کا کام نہیں کرتا جس میں جاندار کی تصویر پرنٹ کرنا پڑے۔
دوائیوں کی پیکیجنگ میں عمومی طور پر کسی جاندار کی تصویر پرنٹ نہیں ہوتی، نہ ہی ادارہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، تا ہم کسی خاص، مثلاً بچوں کے متعلق، عورتوں کی صحت و بیماریوں کے متعلق دوائیوں کی پیکجنگ پر کلائنٹ کبھی کبھار کسی جاندار یا اس کے خیالی عکس (abstract) کے ڈیزائن پرنٹ کرواتے ہیں۔ ان تمام ڈیزائنوں کا مقصد صرف اس دوا کا تعلق اس جاندار سے جوڑنا ہوتا ہے، فحاشی، جنسی بے راہ روی یا بے حیائی کی سوچ کو فروغ دینا ہرگز مقصد نہیں ہوتا۔ ادارہ ان کلانٹس کے ساتھ پچھلے کئی سالوں سے مستقل طور پر منسلک ہے اور ان کے لیے پر نٹنگ اور پیکیجنگ کا کام کر رہا ہے۔
آپ سے گزارش ہے کہ آپ دورِ جدید کی ضروریات اور تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے شریعت کی روشنی میں مینجمنٹ کی رہنمائی کریں کہ کیا ادارہ مندرجہ بالا فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق اپنے کلائنٹس کے لیے یہ مخصوص پیکیجنگ کا کام کر سکتا ہے، یا ان کے ایسے مخصوص آڈرز کا انکار کر دینا چاہیے؟ پیکیجنگ کے کچھ ڈیزائن استفتاء کے ساتھ منسلک ہیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
(1)۔۔۔ واضح رہے کہ بلا ضرورت جاندار کی تصویر پرنٹ کرنا بذاتِ خود ناجائز ہے، لہٰذا غلط مقصد نہ ہو تب بھی بلاضرورت اس کی اجازت نہیں ہوگی، اور اگر تصویر خاتون کی ہوگی جس میں اس کے سر کے بال یا دیگر اعضاء نظر آرہے ہوں تو یہ عدمِ جواز کی دوسری وجہ ہوگی؛ کیونکہ خاتون کا پورا جسم ستر ہے، تصویر میں اس کی نمائش مستقل ناجائز امر ہے۔
مصنوعات (Products) کی تشہیر، کسی مصنوع کا جاندار سے تعلق دکھانا اور اس کے توسط سے گاہک کو اپنی مصنوعات کی طرف راغب کرنا ایسی ضرورت نہیں جس کی وجہ سے جاندار کی تصویر پرنٹ کرنے کی گنجائش ہو؛ کیونکہ اگر مصنوعات کا معیار اور تشہیر کا طریقۂ کار (Marketing Strategy) اچھا ہو تو تصویر کے بغیر بھی لوگ ان مصنوعات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور وہ مارکیٹ میں اپنی جگہ بنالیتی ہیں۔ لہٰذا دواؤں کی پیکجنگ میں بھی جاندار کی تصاویر ڈیزائن کرنا جائز نہیں۔ جاندار کی شکل پر بنائے جانے والے وہ علامتی خاکے (symbols) اور کارٹون بھی جاندار کی تصویر کے حکم میں داخل ہیں جن میں سر اور چہرہ کے اعضاء موجود ہوں۔
(2)۔۔۔ تصویر کا اصل دار ومدار سر، چہرہ اور اس کے خد وخال پر ہے۔ لہٰذا اگر کسی تصویر سے سر بمع چہرہ مکمل کاٹ لیا جائے، یا چہرے کے اعضا نہ بنائے جائیں، بلکہ خالی گول ہیئت بنائی جائے تو وہ شرعاً تصویر کے حکم میں نہیں ہوگی۔ صرف آنکھیں، یا پلکیں یا ہونٹ مٹانے یا نہ بنانے سے تصویر کا حکم ختم نہیں ہوگا۔ نیز خواتین کے صرف ہونٹ، رخسار یا کوئی اور عضو کھلا بنانا اگرچہ تصویر کے حکم میں داخل نہیں؛ لیکن شریعت کی دیگر تعلیمات (ستر، حیاء اور عورت کی کرامت) کے خلاف ہے، اس لیے خواتین کے صرف ان اعضاء کو بھی تشہیر اور مارکیٹنگ کے لیے استعمال کرنا اور بنانا جائز نہیں۔
(3)۔۔۔ آپ نے سوال کے ساتھ خواتین، مردوں، بچوں کی تصاویر اور علامتی خاکوں پر مشتمل جو ڈیزائن بھیجے ہیں، وہ نمبر (1) میں ذکر کردہ تفصیل کی روشنی میں جائز نہیں۔ اگر ان کو نمبر (2) میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق بنایا جائے تو اس کی گنجائش ہوگی، ایسی صورت میں آپ اپنے کلائنٹ کے مشورے سے جو ڈیزائن تجویز کریں، اس کو پرنٹ کرنے سے پہلے کسی مستند دار الافتاء یا مفتی صاحب کو دکھا کر اس کے درست ہونے کی تصدیق کرالیں۔
حوالہ جات
صحيح البخاري (3/ 82):
حدثنا عبد الله بن عبد الوهاب حدثنا يزيد بن زريع أخبرنا عوف عن سعيد بن أبي الحسن قال: كنت عند ابن عباس رضي الله عنهما إذ أتاه رجل فقال يا أبا عباس إني إنسان إنما معيشتي من صنعة يدي وإني أصنع هذه التصاوير فقال ابن عباس لا أحدثك إلا ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول، سمعته يقول: من صور صورة، فإن الله معذبه حتى ينفخ فيها الروح، وليس بنافخ فيها أبدا. فربا الرجل ربوة شديدة واصفر وجهه، فقال: ويحك! إن أبيت إلا أن تصنع، فعليك بهذا الشجر، كل شيء ليس فيه روح.
شرح معاني الآثار - الطحاوي (4/ 287):
عن أبي هريرة رضي الله تعالیٰ عنه قال : الصورة الرأس، فكل شيء ليس له رأس، فليس بصورة.
السنن الكبرى للبيهقي (7/ 270):
عن عكرمة عن ابن عباس رضى الله عنهما قال: الصورة الرأس، فإذا قطع الرأس، فليس بصورة.
مسند أحمد، ط الرسالة (16/ 152):
عن أبي هريرة رضي الله تعالیٰ عنه ، قال: جاء جبريل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: أتيتك البارحة، فما منعني من الدخول عليك إلا كلب كان في البيت، وتمثال صورة في ستر كان على الباب، قال: فنظروا، فإذا جرو للحسن أو الحسين كان تحت نضد لهم ، فأمر بالكلب فأخرج، وأن يقطع رأس الصورة حتى تكون مثل الشجرة، ويجعل الستر منبذتين.
فتح الباري - ابن حجر (10/ 388):
ونقل الرافعي عن الجمهور أن الصورة إذا قطع رأسها، ارتفع المانع.
تکملة فتح الملهم (4/159-155):
ومن أجل هذه الأحادیث والآثار ذهب الفقهاء إلی تحریم التصویر واتخاذ الصور في البیوت، سواء کانت مجسمة لها ظل، أو کانت غیر مجسمة لیس لها ظل. فیقول النووي رحمه الله تعالی تحت حدیث الباب: " قال أصحابنا وغيرهم من العلماء تصوير صورة الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر؛ لأنه متوعد عليه بهذا الوعید الشدید المذکور فى الأحاديث وسواء صنعه بما يمتهن أو بغيره فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالیٰ…..... ولافرق فى هذا كله بين ماله ظل ومالاظل له هذا تلخيص مذهبنا فى المسألة وبمعناه قال جماهير العلماء من الصحابة والتابعين ومن بعدهم، وهو مذهب الثورى ومالك وأبى حنيفة وغيرهم". وبمثله قال العیني في عمدة القاري (10/309)، وبه یتبین مذهب الشافعیة والحنفیة. وهو مذهب الحنابلة أیضًا………. الخ
فالحاصل أن المنع من اتخاذ الصور مجمع علیه فیما بین الأئمة الأربعة إذا کانت مجسدة. أما غیر المجسدة منها، فاتفق الأئمة الثلاثة علی حرمتها أیضا قولًا واحدًا، والمختار عند أکثر المالکیة
کراهتها، لکن ذهب بعض المالکیة إلی جوازها.
بدائع الصنائع (1/ 115):
ولو صلى في بيت فيه تماثيل، فهذا على وجهين: إما إن كانت التماثيل مقطوعة الرؤوس أو لم تكن مقطوعة الرؤوس. فإن كانت مقطوعة الرؤوس، فلا بأس بالصلاة فيه؛ لأنها بالقطع خرجت من أن تكون تماثيل والتحقت بالنقوش. والدليل عليه ما روي أن رسول الله أهدي إلیه ترس فيه تمثال طير فأصبحوا وقد محي وجهه، وروي أن جبريل عليه السلام استأذن رسول الله فأذن له فقال كيف أدخل وفي البيت قرام فيه تماثيل خيول ورجال فإما أن تقطع رؤوسها أو تتخذ وسائد فتوطأ، وإن لم تكن مقطوعة الرؤوس فتكره الصلاة فيه .
الدر المختار (1/ 648):
( و ) لا يكره ( لو كانت تحت قدميه ) أو محل جلوسه؛ لأنها مهانة ……... ( أو مقطوعة الرأس أو الوجه )……الخ
رد المحتار (1/ 650-648):
قوله ( أو مقطوعة الرأس ) أي سواء كان من الأصل، أو كان لها رأس ومحي، وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق له أثر، أو يطليه بمغرة، أو بنحته، أو بغسله؛ لأنها لا تعبد بدون الرأس عادة. وأما قطع الرأس عن الجسد بخيط مع بقاء الرأس على حاله فلا ينفي الكراهة؛ لأن من الطيور ما هو مطوق، فلا يتحقق القطع بذلك. وقيد بالرأس؛ لأنه لا اعتبار بإزالة الحاجبين أو العينين؛ لأنها تعبد بدونها، وكذا لا اعتبار بقطع اليدين أو الرجلين، بحر . …………….. الخ
تنبيه: هذا كله في اقتناء الصورة، وأما فعل التصوير فهو غير جائز مطلقا؛ لأنه مضاهاة لخلق الله تعالى، كما مر.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
24/ربیع الثانی/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |