03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کا اقرار ، لکھ کر دینے سے انکاراوردھمکی کا شرعی حکم
85129طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو، جو پیدائشی طور پر سماعت سے محروم ہے، کسی بھی وجہ سے طلاق دے دے اور تین بالغ مرد گواہوں اور اپنے 20 سالہ بیٹے کی موجودگی میں اس بات کا اقرار بھی کرے کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں اور اب رجوع کی کوئی گنجائش نہیں ہے، تو ایسی صورت میں یہ مسئلہ واضح طور پر بیان ہو جاتا ہے۔ اگر وہ شخص تینوں گواہوں کے مطالبے پر اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بارے میں کسی تحریری ثبوت دینے سے انکار کرے اور یہ کہے کہ "میں لکھ کر نہیں دوں گا، میری مرضی"، اور اس رویے کا کوئی معقول جواب بھی نہ دے، تو اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ تینوں گواہوں کے بار بار اصرار اور درخواست کرنے پر اگر آخر میں وہ شخص یہ جواب دے کہ "میں لکھ کر تو نہیں دوں گا مگر چار دن میں نادرا کا جاری کردہ سرکاری طلاق نامہ بنوا کر فراہم کر دوں گا"، اور اس کے بعد بھی اکہتر (71) دن گزرنے کے باوجود کوئی تحریری ثبوت یا نادرا کا جاری کردہ سرکاری طلاق نامہ فراہم نہ کرے اور مسلسل ٹال مٹول سے کام لے، تو یہ معاملہ زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے۔

مزید برآں، اگر اس شخص کا چھوٹا بیٹا موبائل فون پر گواہوں میں سے ایک گواہ، جو مطلقہ کا بھائی اور اس کا ماموں ہے، کو یہ کہے کہ "ہم طلاق کے کاغذات نہیں دیں گے، جو کرنا ہے کر لو"، تو اس طرز عمل پر شرعی اور قانونی طور پر سوالات اٹھتے ہیں۔

مندرجہ بالا حالات و واقعات کی روشنی میں آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ:

  1. کیا طلاق ہوچکی ہیں؟اور محمد آصف ولد خواجہ عبداللطیف کا یہ طرز عمل شرعی اور قانونی لحاظ سے درست ہے؟
  2. اس شخص کے بیٹے کی دھمکی کی کیا شرعی اور قانونی حیثیت ہے؟

برائے کرم احکامِ الٰہی، شریعتِ مطہرہ اور ملکی قوانین کی روشنی میں اس معاملے کا جواب فتویٰ کی صورت میں فراہم کریں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

١۔صورتِ مسئولہ میں، اگر شوہر نے تین بالغ گواہوں اور اپنے بیٹے کی موجودگی میں بیوی کو تین طلاقیں دینے کا

اقرار کیا ہے تو شرعی طور پر یہ طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اورحرمتِ مغلظہ ثابت ہوچکی ہے۔ شرعاً تین بار طلاق کے واضح اور قطعی اقرار کے بعد رجوع  اورحلالہ کے بغیر نکاح کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

طلاق واقع ہونے کے لیے تحریری ثبوت دینا لازمی شرط نہیں ہے، کیونکہ زبانی طلاق دینا بھی شریعت میں معتبر ہے،  تحریری ثبوت قانونی اعتبار سے ضروری ہو سکتا ہے تاکہ عدالت یا دیگر سرکاری اداروں کے سامنے طلاق کا اندراج ہو سکے، مگر شرعی طور پر طلاق کا وقوع زبانی اقرار سے ہی ہو جاتا ہے۔

شوہر کی جانب سے نادرا کا طلاق نامہ فراہم کرنے میں ٹال مٹول کرنا شرعی لحاظ سے ناپسندیدہ ہے، کیونکہ اس میں بیوی کے حقوق اور مستقبل کے فیصلے کے عمل میں رکاوٹ بنتی ہے، اور شرعاًمطلقہ بیوی کے معاملات میں رکاوٹ پیدا کرنا درست طرزِ عمل اور انصاف پر مبنی بات نہیں ہے۔

۲۔شرعی طور پر کسی بھی قسم کی دھمکی یا غیر ضروری سختی ناپسندیدہ ہے۔ بیٹے کا گواہوں کو طلاق کے کاغذات نہ دینے کی دھمکی دینا نہ صرف اخلاقی لحاظ سے غلط ہے ،بلکہ اس سے شریعت کے عدل اور انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی بھی ہوتی ہے  اورقانونابھی یہ جرم ہے) [1](۔

خلاصہ یہ ہے کہ اس معاملے میں شوہر کا طلاق کا اقرار شرعی طور پر کافی ہے اور طلاق واقع ہو چکی ہے؛ تحریر شرعاً ضروری نہیں، اگرچہ تحریری ثبوت فراہم نہ کرنے سے قانونی پیچیدگی ہو سکتی ہے، لہذا خاوند کا ٹال مٹول کرنا اور اس کے بیٹے کی دھمکیوں پراترآنا  درست طرزِ عمل نہیں ہے۔

پاکستانی قوانین کے مطابق زبانی طلاق کے بعد تحریری نوٹس اور نادرا میں اندراج قانونی تقاضا ہے۔ تحریری ثبوت فراہم نہ کرنے کی صورت میں شوہر قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کر سکتا ہے، اور بیوی عدالت میں اس کی خلاف ورزی کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔([2])

﴿[1] ﴾  پاکستان پینل کوڈ دفعہ 103،106،107

([2]مسلم عائلی قوانین آرڈیننس 1961و نادرا آرڈیننس 2000.

حوالہ جات

في التاتارخانیۃ:

’’وفي الأصل في باب الطلاق: إذا قال لامرأتہ:’’قد طلقتک‘‘ أو قال ’’أنت طالق قد طلقتک أمس‘‘وھو کاذب کان طلاقًا في القضاء. (کتاب الطلاق، فصل فیما یرجع إلی صریح الطلاق: 401/4، فاروقیۃ(

وفي المحیط البرہاني:

’’وفي الأصل في باب الطلاق: إذا قال لامرأتہ:’’قد طلقتک‘‘أو قال:’’أنت طالق قد طلقتک أمس‘‘وھو کاذب کانت طالقا في القضاء‘‘. (کتاب الطلاق: 393/4، إدارۃ القرآن(

وفي رد المحتار:

’’قال:’’أنت طالق‘‘ أو ’’أنت حر‘‘وعنی الإخبار کذبا وقع قضاء، إلا إذا أشھد علی ذلک‘‘.(کتاب الطلاق: 510/4، رشیدیۃ(

فی سنن ابن ماجة (ج 2 / ص 152) :

حدثنا محمد بن رمح . أنبأنا الليث بن سعد ، عن إسحاق بن أبى فروة ،عن أبى الزناد ، عن عامر الشعبى قال :

قلت لفاطمة بنت قيس :حدثينى عن طلاقك . قالت : طلقني زوجي ثلاثا ، وهو خارج إلى اليمن .فأجاز ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم .

الفتاوى الهندية - (ج 10 / ص 196):

وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز .أما الإنزال فليس بشرط للإحلال.

أحكام القرآن للجصاص( ج: 5 ص: 415 ):

قوله تعالى: ﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ﴾ منتظم لمعان: منها تحريمها على المطلق

ثلاثا حتى تنكح زوجا غيره، مفيد في شرط ارتفاع التحريم الواقع بالطلاق الثلاث العقد والوطء جميعا.

وفی الدرالمختار مع ردالمحتار (4/509) :

(كرر لفظ الطلاق وقع الكل.(قوله كرر لفظ الطلاق بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.

وفی بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع :

"أما الصريح فهو اللفظ الذي لا يستعمل إلا في حل قيد النكاح، وهو لفظ الطلاق أو التطليق مثل قوله: " أنت طالق " أو " أنت الطلاق، أو طلقتك، أو أنت مطلقة " مشددا، ..وهذه الألفاظ ظاهرة المراد؛ لأنها لا تستعمل إلا في الطلاق عن قيد النكاح فلا يحتاج فيها إلى النية لوقوع الطلاق؛ إذ النية عملها في تعيين المبهم ولا إبهام فيها."(کتاب الطلاق، فصل في النية في أحد نوعي الطلاق وهو الكناية، 3/101، ط: دارالکتب العلمیة)

المخلصيات (3/ 246)

عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «من روع مؤمنا لم يؤمن الله روعه يوم القيامة، ومن أخاف مؤمنا لم يؤمن الله خوفه يوم القيامة، ومن أقام بمؤمن أقامه الله عز وجل يوم القيامة مقام خزي وذل وندامة» أخرجه ابن عدي (6/ 323) ، والبيهقي في «الشعب» (10605) من طريق أبي سحيم به.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

 24/4/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب