85176 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
میں محمد مختار احمد۔۔۔۔۔کا رہائشی ہوں،میرے چار بچے ہیں،ایک بیٹا ،تین بیٹیاں ہیں،یہ گھر میں نے 2001میں پلاٹ خرید کر گھر بنایاتھا،میری بیوی کو جو تھوڑا حصہ ملا تھا وہ اتنا نہیں تھا کہ ہم گھر بناسکتے، وہ صرف تقریبا ڈھائی لاکھ تھا،اس میں سوسائٹی میں گھر بنانا بہت مشکل تھا،کچھ رشتہ دار بول رہے تھے ندی کنارے گھر بنالو،مگر میں نے ایسا نہیں کیا،بلکہ میں نے سوسائٹی میں پلاٹ خریدا اور 4سال قرضے چکاتا رہا،آہستہ آہستہ گھر بنایا،میری بیوی کا انتقال دوسال بیمار رہنے کے بعد 2013میں ہوگیا،میں گھر بیچنا نہیں چاہتا ،مگر بچے بول رہے کہ حصہ دیدو۔شرعی حکم بیان کریں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر اہلیہ نے مکان کی خریداری میں دولاکھ روپےبطور قرض دیے ہیں،یا وہاں کےعرف کے مطابق ایسی رقم قرض شمار ہوتی ہے جس کی واپسی طے ہوتی ہے تو یہ مکان والد کا ہے ،والدہ کی میراث کے طور پر صرف وہ دو لاکھ روپے تقسیم ہوں گے۔اوراگر مکان کی خریداری میں شراکت مقصود تھی،تو جس قدر رقم خرچ ہوئی، اس کے مطابق وہ اس مکان کی مالک ہے،یعنی اُس زمانے کے اعتبار سے کل قیمت میں ان دولاکھ روپے کی جوحیثیت تھی اسی کے مطابق مکان کی موجودہ قیمت میں وہ شریک ہوگی،اورفقط اتنا ہی حصہ میراث شمار ہوگاجو ورثہ کے درمیان ان کے حصص کے مطابق تقسیم ہوگا۔کل مکان میں چونکہ والد کی بھی ملکیت ہے،اور والد حیات ہیں تو والد کا حصہ ان کی مرضی پر موقوف ہے ،اگر چاہے تو اولاد میں تقسیم کرے،اگرنہ چاہے تو تقسیم نہ کرے۔
حوالہ جات
سید نوید اللہ
دارالافتاء،جامعۃ الرشید
25/ ربیع الثانی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید نوید اللہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |