03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گزشتہ دوسالوں کی سونے کی زکوة ادا کرنے کا طریقہ
85244زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

18 ستمبر 2020ء کو میری شادی ہوئی، اس مہینے ٹوٹل نو تولےسے کچھ کم سونا میری ملکیت میں آیا،2021ء میں زکوة  دینے کا وقت آیا تو اس وقت  میرے زیورات کی قیمت آٹھ لاکھ سے کچھ اوپر بنی تھی، جس میں23000روپے زکوۃ نکلی تھی، جس کی ادائیگی میں نے سونےکاہار فروخت کرکے کی تھی، ہار کی مالیت 70000 بنی تھی، اس کے بعد سے  میں نے زکوۃ ادا نہیں کی،  اس دوران 80000 کی بالیاں فروخت ہوئیں اور ایک انگوٹھی جس کی مالیت 20000تھی، سوال یہ  ہیکہ باقی دو سالوں کی زکوة کیسے ادا ہوگی؟ کیونکہ جہاں تک مجھے یاد ہے بالیوں پر ایک سال گزر چکا تھا اور انگوٹھی ابھی مارچ 2024 میں میری ملکیت  میں نہیں رہی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زکوة کی ادائیگی کے لیے یہ اصول سمجھنا ضروری ہے کہ زکوة قمری سال کے اعتبار سے ادا کرنا ضروری ہے، اس میں شمسی سال کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، لہذا 18ستمبر2020ء کو قمری اعتبار سے یکم صفر1442ھ کی تاریخ بنتی تھی، اگلے سال 2021ء میں بھی آپ کو اسی اسلامی تاریخ (يکم صفر1443ھ)کا اعتبار کرنا چاہیے تھا، ابھی بھی آپ 18 ستمبر سے دس دن پہلے کی تاریخ کا حساب لگا لیں اور اگر اس تاریخ کو 18 ستمبر کی بنسبت مال میں کچھ اضافہ معلوم ہو تو اس کے حساب سے مزید رقم بطورزکوة ادا کر دیں۔

آئندہ سال بھی یکم صفر1444ھ کی تاریخ کے حساب سے زکوة ادا کرنا ہو گی، جس کا طریقہ یہ ہے کہ اس تاریخ کو آپ اپنے پاس موجود زیور کسی سنار کو دکھا کر اس میں موجود خالص سونے (خالص سونے کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ زکوة چیز کی قیمتِ فروخت پر واجب ہوتی ہے اور بنا ہوا زیور جب سنار کو فروخت کیا جاتا ہے تو وہ اس میں سے پالش، چھیجت(Wastage)، نگینے، کھوٹ اورمزدوری وغیرہ نکال کر گاہک کو صرف خالص سونے کی قیمت ادا کرتا ہے، گویا کہ گاہک کے پاس خالص سونا ہی مالیت رکھتا ہے اور اسی مالیت پر شرعا زکوة واجب ہے) کی موجودہ قیمت(Market Value) معلوم کر لیں اور اس قیمت کا چالیسواں حصہ زکوة ادا کردیں، اس کے بعدیکم صفر1445ھ کو موجود سونا،نقدی اور دیگر اموالِ زکوة کا حساب کر کے موجودہ مجموعی قیمت میں سے 1444ھ کوواجب الاداء زکوة کی رقم منہا کر کے بقیہ قیمت کا چالیسواں حصہ زکوة ادا کر دی جائے،پھریکم صفر1446ھ کواپنے پاس موجود سونا، نقدی اور دیگر اموال زکوة کا حساب کر کے موجودہ مجموعی قیمت میں سے 1445ھ کو واجب الاداء زکوة کی رقم منہا کر دیں اور بقیہ رقم کا چالیسواں حصہ زکوة ادا کر دیں تو گزشتہ سالوں کی زکوة ادا ہو جائے گی، پھر آئندہ ہر سال یکم صفر کو اپنے پاس موجود خالص سونے اورنقدی  وغیرہ کا حساب کر کے اس کا چالیسواں حصہ زکوة  اداکر دیا کریں۔

مذکورہ بالا طریقہٴ کار آپ کی ملکیت میں موجودزیور کی زکوة ادا کرنے کا ہے، جہاں تک بالیوں اور انگوٹھی کی زکوة کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ لگا لیں اگر آپ کے پاس بالیاں یکم صفر1443ھ کے بعد ایک سال تک رہی ہیں تو ان کی قیمت کا چالیسواں حصہ ادا کر دیا جائے اور انگوٹھی اگر دو سال تک پاس رہی ہے تو اس کی قیمت کا چالیسواں حصہ زکوة ادا کرنے کے بعد زکوة کے طور پر دی گئی رقم منہا کر کے بقیہ رقم کا دوبارہ چالیسواں حصہ ادا کر دیں تو انگوٹھی کی گزشتہ دو سالوں کی زکوة ادا ہو جائے گی۔

حوالہ جات

بدائع الصنائع، كتاب الزكوة(ج:2،ص:387):

إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرين مثقال ذهب فلم يؤد زكاته سنتين يزكي السنة الأولى، وليس عليه للسنة الثانية شيء عند أصحابنا الثلاثة. وعند زفر يؤدي زكاة سنتين، وكذا هذا في مال التجارة، وكذا في السوائم إذا كان له خمس من الإبل السائمة مضى عليها سنتان ولم يؤد زكاتها أنه يؤدي زكاة السنة الأولى وذلك شاة ولا شيء عليه للسنة الثانية. ولو كانت عشرا وحال عليها حولان يجب للسنة الأولى شاتان وللثانية شاة.

ولو كانت الإبل خمسا وعشرين يجب للسنة الأولى بنت مخاض وللسنة الثانية أربع شياه. ولو كان له ثلاثون من البقر السوائم يجب للسنة الأولى تبيع أو تبيعة ولا شيء للسنة الثانية وإن كانت أربعين يجب للسنة الأولى مسنة وللثانية تبيع أو تبيعة. وإن كان له أربعون من الغنم عليه للسنة الأولى شاة ولا شيء للسنة الثانية.

بدائع الصنائع، كتاب الزكوة(ج:2،ص:418):

وإنما له ولاية النقل إلى القيمة يوم الأداء فيعتبر قيمتها يوم الأداء، والصحيح أن هذا مذهب جميع أصحابنا.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

24/ربیع الثانی 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب