03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدہ کے نام کئے گئے مکان میں والدہ کے تصرف کاحکم
85181ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

میرے تین بیٹوں نے مل کر ایک مکان خریدا اور اپنی والدہ کے نام کردیا تھا،اب بیٹے اس بات کا مطالبہ کررہے ہیں کہ اس مکان کا بٹوارہ کیا جائے،جبکہ والدہ تیار نہیں ہے،وہ کہتی ہے کہ مکان میرے نام ہے،اس لئے میری مرضی ہوگی۔

تنقیح: سائل نے بتایا کہ اس مکان میں یہ فیملی مشترکہ طور پر رہائش پذیر ہے،یعنی مکان والدہ کے نام کروانے کے بعد خالی کرکے والدہ کے قبضے میں نہیں دیا گیا اور بیٹوں نے بھی والدہ کو مالک بنانے کی نیت سے مکان والدہ کے نام نہیں کیا،بلکہ انتظامی طور پر ان کے نام کروایا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ بیٹوں کے بقول انہوں نے یہ مکان والدہ کو ہبہ نہیں کیا،بلکہ محض انتظامی طور پر والدہ کے نام منتقل کیا ہے،اس لئے یہ مکان بدستور بیٹوں کی مشترکہ ملکیت میں ہے،وہ لوگ اپنی مرضی سے اس کو تقسیم کرسکتے ہیں،والدہ کو اس میں تصرف اختیار حاصل نہیں۔

حوالہ جات

"فقہ البیوع" (1/ 226):

"وماذکرنا من حکم التلجئة یقاربہ ما یسمی فی القوانین الوضعیة عقودا صوریة...

وھی ان تشتری ارض باسم غیر المشتری الحقیقی وتسجل الارض باسمہ فی الجھات الرسمیة وذلک لاغراض ضریبیة او لاغراض اخری ولکن المشتری الحقیقی ھو الذی دفع ثمنہ.....

وکذلک القانون الوضعی فی بلادنا یعترف بان المشتری الحقیقی ھو الذی یدفع الثمن اما الذی سجل العقد باسمہ صورة،فانہ یعتبر امینا للمالک الحقیقی ووکیلا لہ لاتخاذ الاجراءات القانونیة".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

25/ربیع الثانی1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب