03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ساٹھ فیصد کمائی صدقہ کرنے اور  اس میں سے  اپنے اوپر خرچ     کرنے کا حکم
85211زکوة کابیانصدقات واجبہ و نافلہ کا بیان

سوال

میں ایک غریب شخص ہوں اور میرا کوئی  مستقل کاروبار نہیں ہے، بس کبھی کبھی مزدوری لگ جاتی ہے،  میں نے ٪60 پر اللّٰہ رب العزت کو اپنے کام کا شریک بنایا ہوا ہے ،یعنی ٪60صدقہ کرتا ہوں اور باقی   ٪40حصہ اپنے لیے رکھتاہوں، الحمدللہ ! سب معاملات ٹھیک ہیں اور  میں اپنی زندگی میں خوش ہوں۔ کل مجھے یہ سوچ آئی کہ کیا میں اللّٰہ رب العزت کا حصہ اپنے اوپر اور اپنی جائز خواہشات  پوری  کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہو ں ؟ کیونکہ میں خود انتہائی غریب انسان ہوں۔

تنقیح :استفسار پر سائل نے وضاحت کی کہ میں نے  ایک بڑے اسکالر کی ویڈیو دیکھی،انہوں نے کہا کہ اپنے کاروبار میں اللہ تعالیٰ کو اپنا پارٹنر بنا لیں اور کم از کم ٪51پر،میں نے دل میں سوچا کہ اچھا عمل ہےاور جو چیزاچھی ہوتی  ہے اسے میں فالو کرتا ہوں،یہ بات بھی پسند آئی تو میں نے اس دن کی کمائی سے ٪51 حصہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے دیا،پھر کچھ دن بعد ایک اور ویڈیو دیکھی تو ٪60 کردیا،میں نے نذر کی نیت یا زبان سے  کوئی  اور الفاظ بھی  ادا نہیں کیے ، بس یہ عمل پسند آیا تو اسے کیا اور کررہا ہوں ، اور مجھے اس سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مذکورہ میں آپ نے  ایک اچھے عمل یعنی اپنی کمائی سے  ٪51حصہ صدقہ  کرنے کےبارے میں سن کر عمل کے ارادے سے اسے شروع کیااور پھراسے ٪60 کرکے اب تک کر رہے ہیں، مگر زبان سے  الفاظ ادا کرکے اپنے اوپراس بات کا کوئی  التزام نہیں کیااور نہ ہی اس پر کوئی قرینہ پایا گیا کہ میں ہمیشہ ایسا کروں گا،لہٰذا اس سے کوئی شرعی حکم جیسے نذر یا یمین (قسم)  وغیرہ  ثابت  نہیں ہوا کہ جس کے مطابق ہمیشہ آپ  پر یہ صدقہ کرنا واجب ہو،البتہ اس  پر آسانی سےعمل جاری رکھ سکیں تویہ مستحب ہے،نیز صدقاتِ غیر واجبہ سے خود بھی کھایاجا سکتا ہے، بلکہ احادیثِ مبارکہ  سے معلوم ہوتاہے کہ ثواب کی نیت سے اپنے اوپر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے،اس لیےاگر صدقہ کرنے  والا فقیر ہو تو اس کے لیےاپنے اوراپنے عیال پر صدقہ کرنا زیادہ افضل ہے۔

 یہ واضح رہے کہ  دین کے ہر حکم میں اعتدال ضروری ہے،اس لیے جیسے مالِ حلال کمانے میں غلو (شرعی حدود سے تجاوز کرنا) ممنوع  ہے تو اس کے صدقہ کرنے میں بھی غلوسے کام لینا جائز نہیں ہے،لہٰذا ایک  آدمی کے لیے اپنی اور اپنے ماتحت افراد کی ضرورت سے زائد مال کا دوسروں پر  صدقہ کرنا مستحب ہے، مگر اتنا  مال صدقہ کرناکہ جس سے ماتحت افراد کی ضروریات میں حرج آئے تو یہ گناہ ہے،اسی طرح اگر صرف اپنی ضروریات میں حرج ہواور اس پر صبر نہ کر سکے تو یہ بھی  مکروہ ہے۔

حوالہ جات

الموسوعة الفقهية الكويتية (6/ 151):

ركن الالتزام عند الحنفية هو: الصيغة فقط ،ويزاد عليها عند غيرهم: الملتزم (بكسر الزاي) والملتزم له،والملتزم به، أي محل الالتزام.أولا: الصيغة:تتكون الصيغة من الإيجاب والقبول معا في الالتزامات التي تتوقف على إرادة الملتزم والملتزم له، كالنكاح وكعقود المعاوضات، مثل البيع والإجارة،وهذا باتفاق.أما الالتزامات بالتبرعات كالوقف والوصية والهبة، ففيها اختلاف الفقهاء بالنسبة للقبول.ومن الالتزامات ما يتم بإرادة الملتزم وحده باتفاق، كالنذر والعتق و اليمين.وصيغة الالتزام (الإيجاب) تكون باللفظ أو ما يقوم مقامه من كتابة أو إشارة مفهمة و نحوها مما يدل على إلزام الشخص نفسه ما التزمه  .وقد يكون الالتزام بالفعل كالشروع في الجهاد و الحج، وكمن قام إلى الصلاة فنوى وكبر فقد عقدها لربه بالفعل.

شرح مشكل الآثار (14/104،105):

عن أبي هريرة رضي الله عنه، أن رسول الله ﷺ حث ذات يوم على الصدقة، فقال رجل: عندي دينار، قال: " تصدق به على نفسك " قال: عندي آخر، قال: " تصدق به على ولدك " قال: عندي آخر، قال: " تصدق به على زوجتك " قال: عندي آخر قال: " تصدق به على خادمك " قال: عندي آخر قال: "أنت أبصر "...وعن أبي هريرة رضي الله عنه  قال: جاء رجل إلى النبي ﷺ، ثم ذكر مثله، غير أنه قال مكان: " أنت أبصر "، " أنت أعلم "...وقد يحض على الصدقة الأغنياء الذين تجب عليهم الزكوات، ومن سواهم من ذوي الفضول عن أقواتهم، وإن لم يكونوا أغنياء، ومن ذلك ... عن أبي مسعود قال: " كان رسول الله ﷺ يأمرنا بالصدقة , فما يجد أحدنا شيئا يتصدق به حتى ينطلق إلى السوق، فيحمل على ظهره، فيجيء بالمد فيعطيه رسول الله ﷺ، وإني لأعرف اليوم رجلا له مائة ألف , ما كان له يومئذ درهم ".

صحيح ابن حبان - محققا (10/ 47،51):

ذكر الخبر الدال على أن نفقة المرء على نفسه وعياله عند عدم اليسار أفضل من صدقة التطوع: أخبرنا محمد بن الحسن بن خليل، قال: حدثنا عبد الرحمن بن إبراهيم، قال: حدثنا بشر بن بكر، قال: حدثنا الأوزاعي، قال: حدثني عطاء بن أبي رباح قال:حدثني جابر بن عبد الله أن رجلا من أصحاب رسول الله ﷺ أعتق عبدا له من بعده، ولم يكن له مال غيره، فأمر رسول الله ﷺ فباعه، وقال: "أنت أحق بثمنه، والله عنه غني"...عن أبي مسعود، عن النبي ﷺ قال: "إذا أنفق الرجل على أهله وهو يحتسبها، كانت له صدقة".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار:2/ 357):

اعلم أن الصدقة تستحب بفاضل عن كفايته وكفاية من يمونه، وإن تصدق بما ينقص مؤنة من يمونه أثم، ومن أراد التصدق بماله كله وهو يعلم من نفسه حسن التوكل والصبر عن المسألة فله ذلك وإلا فلا يجوز، ويكره لمن لا صبر له على الضيق أن ينقص نفقة نفسه عن الكفاية التامة كذا في شرح درر البحار وفي التتارخانية عن المحيط الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين و المؤمنات؛ لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء اهـ والله تعالى أعلم.                                                                    

  محمدعبدالمجیدبن مریدحسین

   دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی

   26/ربیع الثانی/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمدعبدالمجید بن مرید حسین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب