85267 | مضاربت کا بیان | متفرّق مسائل |
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے ایک شخص کے پاس کپڑے کے کاروبار میں کچھ رقم لگائی تھی۔ میرے ساتھ چار اور لوگ بھی شامل تھے۔ ہر شخص کو اس کے حصہ کے اعتبار سے منافع ملتا تھااور مال میں کسی نقصان کی صورت میں وہ نقصان تمام شرکاء میں حصص کے اعتبار سے تقسیم کیا جاتا تھا۔ جہاں ہم نے رقم لگائی تھی ،اس شخص نے دو تین ماہ منافع دیا، اس کے بعد تمام رقم لے کر رفوچکر ہو گیا۔ اس پر ہم نے کورٹ میں کیس بھی کیا ہوا ہے۔ ہم میں سے ہر شریک نے دوسروں سے پیسے لے کر اس بندے کے پاس لگائے تھے۔ تو کیا اس صورت میں ہم چار لوگ ان لوگوں کے دَین دار یعنی مقروض ہیں جن سے ہم نے رقم لے کر مذکورہ شخص کے پاس کاروبار میں لگائی تھی؟ اگر ہم دَین داریعنی مقروض ہیں تو اس نقصان کو ہم شرکاء میں کس طرح تقسیم کیا جائےجس کے ہم دَین داراورمقروض ہوں؟ یا یہ کہ ہم اگر وصولی کر لیں تب ہی دَین داراور مقروض ہوں گے؟
برائےکرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔ عین نوازش ہو گی۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
آپ لوگوں کا آپس میں معاملہ شریعت کی اصطلاح میں مضاربت کہلاتا ہے جس میں ایک آدمی اپنا مال لگاتا ہے اور دوسرا اپنی محنت اور ذہانت سے اس مال سے نفع کماتا ہے اور پھر طے شدہ حصص کے مطابق نفع تقسیم کر لیا جاتا ہے۔ چونکہ ہر شخص میں اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے مال کو کسی کاروبار میں لگا کر اس سے نفع حاصل کرے لہذا وہ کسی سمجھدار اور زیرک شخص کا سہارا لیتا ہےکہ اس کے ذریعے نفع حاصل کرے ۔ اس دوسرے شخص کو مضارب کہا جاتا ہے ، مضارب کی حیثیت ایک امین کی ہوتی ہے اور اس کے پاس رقم امانت ہوتی ہےلہذا اس پر لازم ہوتا ہے کہ اس رقم کی حفاظت کرے اور ایسی جگہ لگانے سے گریز کرے جہاں نقصان یا دھوکے کا معتد بہ اندیشہ ہو۔جب آپ نےدوسروں سے بطور مضاربت رقوم لیں اور انہوں نے آپ کو آگے کاروبار میں لگانے کی مطلقاً اجازت دے دی تھی تو یہ رقم آپ لوگوں کے پاس امانت تھی اور آپ پر لازم تھا کہ یہ رقم ایسے کاروبار میں لگائیں جس میں نفع حاصل ہونے کی قوی امید ہو اور دھوکہ دہی کا اندیشہ نہ ہو۔ جب آپ نے وہ رقم آگے جس دوسرے شخص کو کاروبار کے لیے دے دی تو اگر وہ دوسرا شخص قابلِ اعتماد آدمی تھا اور اس سے دھوکہ دہی کا بالکل امکان نہیں تھا اور کاروبار بھی ایسا تھا کہ آپ لوگ بے دھڑک اس میں اپنی رقوم بھی لگاتے، تب تو اصولاً آپ پر اور دیگرچار لوگوں پر جنہوں نے بطور ایجنٹ کام کیا ہے کوئی ضمان نہیں آئے گا اور آپ ان لوگوں کے دَین دار نہیں ہوں گےجنہوں نے آپ کو رقمیں دی تھیں؛ کیونکہ مضاربت میں نقصان رب المال یعنی پیسے لگانے وانے شخص کا ہوتا ہے۔ لہذا اس صورت میں لوگوں کی رقوم لے کر بھاگنے والا شخص ہی اصل ذمہ دار ہے۔ چنانچہ جب وہ مفرور شخص مل جائے گا تو اسی سے مطالبہ کیا جائے گا اور قانوناً مجبور کیا جائے گا کہ لوگوں کی رقوم ادا کرے۔
لیکن اگر مفرور شخص کوئی غیر معروف یا ناقابل اعتماد شخص تھا جس کے پاس بے دھڑک سرمایہ کاری نہیں کی جا سکتی تھی، تو آپ لوگوں نے اس کے پاس پیسے لگا کر امانت میں تعدی کی ہے، لہذا آپ سب لوگ ضامن ہوں گے اور جس شخص نے جتنی جتنی رقم لی ہے اتنی رقم واپس کرنا اس پر لازم ہے۔ اس صورت میں جتنی رقم پہلے نفع کی مد میں لوگوں کو دے چکے ہیں وہ بھی سرمایہ ہی شمار ہو گی، اتنی رقم منہا کر کے باقی رقم واپس کرنی ضروری ہے۔
حوالہ جات
قال جمع من العلماء رحمھم اللہ : ولو استهلك المضارب الآخر المال أو وهبه كان الضمان على الآخر خاصة ،دون الأول؛ لأنه في مباشرة هذا الفعل مخالف لما أمره الأول، فيقتصر حكمه عليه ،بخلاف ما إذا عمل بالمال؛ لأنه في مباشرة العمل امتثل أمر المضارب الأول( الفتاوى الهندية:4/ 299)
وفیہ ایضاً: إذا لم يعين مكان الحفظ ،أو لم ينه عن الإخراج نصا بل أمره بالحفظ مطلقا ، فسافر بها، فإن كان الطريق مخوفا، فهلكت، ضمن بالإجماع. (الفتاوى الهندية:4/ 341)
وقال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ: وحكمها أنه أمين بعد دفع المال إليه ،ووكيل عند العمل ........ولا ضمان عليه إذا فسدت بالهلاك بغير صنعه وغاصب عند الخلاف ،ومستقرض عند اشتراط كل الربح له، ومستبضع عند اشتراطه لرب المال، فلا ربح له ولا أجر ولا ضمان عليه بالهلاك.......وليس له أن يعمل ما فيه ضرر، ولا ما لا يعمله التجار، ولا أن يبيع إلى أجل لا يبيعه التجار.(البحر الرائق :7/ ,265264)
وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ: (وما هلك من مال المضاربة يصرف إلى الربح) ؛لأنه تبع (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن) ولو فاسدة من عمله ؛لأنه أمين (وإن قسم الربح وبقيت المضاربة ثم هلك المال أو بعضه ترادا الربح ليأخذ المالك رأس المال، وما فضل بينهما، وإن نقص لم يضمن) .(الدر المختار ،ص:548)
وفی المجلۃ الأحکام العدلیۃ: (المادة :787) إذا هلكت الوديعة، أو طرأ نقصان على قيمتها في حال تعدي المستودع، أو تقصيره، يلزم الضمان. ( مجلۃ الأحکام العدلیۃ،ص:150)
سعد امین بن میر محمد اکبر
دارالافتاء ،جامعۃ الرشید ،کراچی
26/ربیع الثانی1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سعد امین بن میر محمد اکبر | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |