85235 | نماز کا بیان | نما زکے جدید مسائل |
سوال
سوال:السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!میں جہانزیب ولدمحمدا کرم (مرحوم) آپ سے اپنی والدہ ،جن کا انتقال پچھلے ہفتہ بتاریخ06-10-2024 ہوا ہے، زکوة ، اُن کی فوت شدہ نمازوں اوران کی میراث کے حصہ کی تقسیم کے بارے میں راہنمائی کی درخواست کرتا ہوں۔
نماز کا مسئلہ :والدہ پچھلے 9 سال سے چار پائی پر تھیں، اُن کے ہاتھ پاؤں نے کام / حرکت کرنا چھوڑ دیا تھا۔ صرف بایاں ہاتھ چارپائی پرقریب یعنی سرہانے رکھی ہوئی پلیٹ سے کچھ اٹھانے کیلئے مشکل سے استعمال کرتی تھی،ان نوسالوں میں شروع کے دو سال ہم ان کو اٹھا کر بٹھاتے تو کھانا خود کھا لیتی تھیں، تیسرے سال سے کروٹ بھی دلانی پڑتی تھی، میری بیگم دن میں ایک دفعہ یا دو دفعہ انکا ڈائپر چینج کرتی تھی، ناپاکی اور معذوری کی وجہ سے نو سال کی نمازیں ضائع ہوئی ہیں اور مستقل بیماری کیوجہ سے قضاء بھی نہیں پڑھ سکیں، اب ان نمازوں کا کیا حکم ہے ؟
نوٹ: والدہ سر کو اٹھانے پر قادر نہیں تھی مگر سر کو ایک طرف یا دوسری طرف اکثر پھیرسکتی تھی۔
1. تمام بھائی بہنوں کی مالی حیثیت کمزور ہے اور والدہ کی نمازوں کافدیہ ادا کرنے کی حیثیت نہیں رکھتے،آیا ہم والدہ کے حصہ اور ان کے پاس موجودسونے کا زیور فروخت کرکے ان کی نمازوں کا فدیہ اور زکوۃ ادا کر سکتے ہیں؟
2. 9 سال نمازوں کا فدیہ کتنا بنتاہے؟اوربیس روزوں کا؟ اس سلسلے میں آپکی قیمتی رہنمائی کیلئے آپ کے بے حد مشکور رہیں گے ۔
نوٹ :والدہ نےنماز ،روزوں اورزکوۃ کےبارےمیں کوئی وصیت نہیں کی تھی ۔
تنقیح:سائل نےوضاحت کی ہےکہ 9سال میں باقی روزےرکھ چکی ہیں،صرف 20روزےباقی تھے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
گزشتہ 9 سالوں کےدوران جس مدت میں مرحومہ سرکےاشارےسے نمازپڑھنےپربالکل قادرنہیں تھی(اوروہ نمازیں پانچ نمازوں سےزیادہ ہوں) توخاص اس مدت کی نمازیں شرعامعاف ہوں گی،ان کی قضاء بھی واجب نہ ہوگی،اورجس مدت میں سرکےاشارےسےنمازپرقادرتھی تواس مدت کی قضاءبھی واجب تھی اورقضاءنہ کرسکیں تودرج ذیل تفصیل کےمطابق فدیہ کاحکم بھی ہوگا۔
صورت مسئولہ میں والدہ کی طرف سےقضاء شدہ نمازوں کےفدیہ کاحکم یہ ہےکہ اگرمرحومہ نےفدیہ کی وصیت کی ہوتوان کی وفات کےبعد اس وصیت کو مرحومہ کےتہائی مال سےپوراکرناشرعالازم ہے،ورنہ نہیں۔
موجودہ صورت میں چونکہ نماز،روزں کےفدیہ کی وصیت نہیں کی ،لہذا ورثہ پرنمازروزں کےفدیہ کی ادائیگی شرعالازم نہیں۔
پھربھی اگروالدہ کی طرف سےنماز،روزوں کافدیہ اداکرنا چاہیں توتمام ورثہ باہمی رضامندی سےادائیگی کرسکتےہیں۔
فدیہ کی تفصیل درج ذیل ہے:9سال کی نمازوں کافدیہ :
ایک نماز کافدیہ صدقہ فطرکی قیمت کےبقدرہے،وترسمیت ایک دن کی چھ نمازیں بنتی ہیں،یعنی ہرنمازکےبدلےپونےدوکلو(یااحتیاطاسوادوکلو)گندم یااس کی قیمت دیناہوگی ،اس اعتبارسے9سال کی نمازوں کاحساب لگالیاجائے۔
نمازوں کےفدیہ کی تفصیل(سوادوکلوگندم کی قیمت کےاعتبارسے) :
ایک نمازکافدیہ 184.5:روپے
ایک دن(چھ نمازوں ) کافدیہ 1107=184.5x6:روپے
ایک سال کی نمازوں کافدیہ : 404055=1107x365روپے
9سال کی نمازوں کےمجموعی فدیہ کی رقم : 3636495=404055x9روپے
20روزوں کےفدیہ کی تفصیل (سوادوکلوگندم کی قیمت کےاعتبارسے):
ایک روزہ کافدیہ 184.5:روپے
20روزوں کافدیہ 3690=184.5x20:روپے
موجودہ صورت میں چونکہ والدہ کی طر ف سےوصیت نہیں کی گئی تھی،لہذاوالدہ مرحومہ کی طرف سےان کےنمازاور روزوں کافدیہ دیناورثہ پرلازم نہیں ،سوال میں جیساکہ وضاحت کی گئی ہےکہ ورثہ کی مالی حیثیت اس قدر نہیں کہ فدیہ کی ادائیگی کی جاسکےاورفدیہ کی رقم بھی مجموعی طورپر3640185 روپےبنتی ہے،اس لیےورثہ اگرادا نہ بھی کریں توشرعاوہ گناہگارنہیں ہونگے،ایسی صورت میں والدہ کےلیےنفل عبادات،بقدراستطاعت صدقہ وخیرات اوردعائےمغفرت کااہتمام کرتےرہناچاہیے۔
جہاں تک والدہ کےزیور کوبیچنےکاتعلق ہےتو چونکہ والدہ کا زیور بھی میراث ہےاس لیےتمام ورثہ اگرباہمی رضامندی سےاس کوبیچ کر فدیہ کی رقم دینا چاہیں تودی جاسکتی ہےورنہ میراث میں تقسیم کرناضروری ہوگا۔
حوالہ جات
"رد المحتار" 5 / 331:
( ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر ) كالفطرة ( وكذا حكم الوتر ) والصوم ، وإنما يعطي ( من ثلث ماله )۔۔۔
" رد المحتار" 5 / 333:
( قوله وإنما يعطي من ثلث ماله ) أي فلو زادت الوصية على الثلث لا يلزم الولي إخراج الزائد إلا بإجازة الورثة۔
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی
27/ربیع الثانی 1446ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |