85238 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
وراثت کامسئلہ :ہم چھ بھائی اور تین بہنیں ہیں،جن میں ایک بھائی کا انتقال ہو گیا ہے،والدکی وفات کےبعداوروالدہ سےپہلے،اب پانچ بھائی اور تین بہنیں ہیں،والد صاحب کی وراثت میں کچھ پلاٹ اور رہائشی گھر رہ گیا تھا، ان کی وفات کے وقت باہمی مشورے سے تمام پانچ بھائیوں نے میرے علاوہ وہ پلاٹ تقسیم کر دیے، ہمیں(میں ایک بھائی ، تین بہنوں اور والدہ ) پلاٹ میں کچھ نہیں دیاگیااورصرف یہ گھر (رہائشی )حصہ میں دیاگیا، جو ابھی تک ہمارے زیر استعمال ہے۔
والدہ کی وفات کے بعد یہ گھر فروخت کرکے حصوں کی تقسیم درکار ہے، اس سلسلے میں مندرجہ ذیل سوالات میں آپکی رہنمائی درکار ہے:
میرے علاوہ تمام پانچ بھائیوں کو اپنا حصہ مل چکا ہے، کیا اس گھر میں جوحصہ والدہ کی وفات کے بعد ان کا رہ گیا ہے،ان بھائیوں کو دیا جائے گایا یہ میرےاورمیرےساتھ بہنوں کودیاجائےگا،دونوں صورتوں میں تقسیم کیسےہوگی؟راہنمائی درکارہے۔
تنقیح:والدکی وراثت کی تقسیم باہمی رضامندی سےہوئی تھی، اس تقسیم پر اس وقت سےتمام ورثہ راضی ہیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں والدکی وفات کےوقت چونکہ باہمی رضامندی اور مشاورت سےتقسیم ہوئی تھی اورہرایک تقسیم پرراضی تھا، تو یہ تقسیم شرعابھی درست ہے،لہذا والدکی میراث میں سے اس رہائشی مکان میں دیگرپانچ بھائیوں کاکوئی حصہ نہیں ہوگا،کیونکہ میراث ایک دفعہ باہمی رضامندی سےتقسیم ہوجائےتوشرعادوبارہ تقسیم کااختیارنہیں ہوتا۔
یہ رہائشی مکان آپ اورتین بہنوں کی ذاتی ملکیت ہے،البتہ والدہ کےحصےکےبقدردیگربھائی اس میں شریک ہونگے،اس کی تفصیل اگلےسوال کےجواب میں مذکور ہے۔
حوالہ جات
۔
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی
27/ربیع الثانی1446ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |