85248 | زکوة کابیان | زکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان |
سوال
میں ایک ادارے سے تعلق رکھتا ہوں جو کسی دنیاوی غرض اور مقصد کے بغیر خالصتًا اللہ کی رضا کے لیے کام کرتا ہے۔ ادارے کے کاموں میں تعلیمی کام، جیسے ختمِ نبوت کورس، ردِ الحاد کورس، اور رفاہی کام، جیسے غربا و مساکین اور یتیموں کی مدد کرنا اور ضرورت مندوں کا سہارا بننا شامل ہے، خلاصہ یہ کہ ادارہ انسانی خدمت اور تعلیم و تربیت کا کام فی سبیل اللہ کرتا ہے۔
اس ادارے کو تعاون (Donation) کی اشد ضرورت ہے، لوگ تعاون کے طور پر اپنی زکوۃ اور صدقات دیتے ہیں۔ کیا اس ادارے کے لیے زکوۃ اور صدقات لینا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو کن کاموں میں استعمال کر سکتے ہیں؟ ادارے کے اخراجات، وہاں کام کرنے والوں کی تنخواہیں، سفر کا خرچہ، میڈیا ہاؤس چلانے کے لیے لوگوں کی تنخواہیں اور مساکین کے لیے رفاہی کاموں میں راشن وغیرہ کا انتظام کرنے میں سے زکوۃ اور صدقات کہاں کہاں خرچ کر سکتے ہیں؟ ادارے کے جن اخراجات میں زکوۃ اور صدقات نہیں لگائے جا سکتے، کیا تعاون کی اشد ضرورت ہونے کی وجہ سے ان کے لیے حیلۂ تملیک کیا جا سکتا ہے؟ جیسا کہ اکثر مدارس اور دینی اداروں میں ہوتا ہے۔ ہمارا ادارہ رہائشی نہیں، مذکورہ کورسز کرنے والوں کی رہائش ادارے میں نہیں ہوتی۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
زکوۃ اور صدقاتِ واجبہ کی ادائیگی کی ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ کسی مستحقِ زکوۃ فقیر کی ملکیت میں دئیے جائیں، ان کو ایسی جگہ پر خرچ نہیں کیا جاسکتا جس میں فقیر کو مالک نہ بنایا جاتا ہو۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کا ادارہ زکوۃ اور صدقاتِ واجبہ کی رقوم بھی مستحقینِ زکوۃ کو مالک بنا کر دے سکتا ہے اور ان رقوم سے ان کے لیے راشن یا ضرورت کی دیگر اشیاء خرید کر بھی ان کی ملکیت میں دے سکتا ہے، لیکن ملازمین کی تنخواہوں، اسفار وغیرہ میں خرچ نہیں کر سکتا، اس سے زکوۃ اور صدقۂ واجبہ ادا نہیں ہوگا، لہٰذا اس قسم کے اخراجات عمومی نفلی صدقات اور عطیات کی مد سے پورے کیے جائیں، البتہ اگر کوئی شخص نفلی صدقہ اور عطیہ بھی فقرا کو دینے کی صراحت کر دے تو اس کو بھی ادارے کے دیگر اخراجات میں لگانا درست نہیں ہوگا، بلکہ اس کی ہدایت کے مطابق خرچ کرنا ضروری ہوگا۔
صورتِ مسئولہ میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ مخیر حضرات کے سامنے ادارے کے نیک مقاصد واضح کیے جائیں اور ان سے عطیات اور نفلی صدقات دینے کی اپیل کی جائے۔ حیلۂ تملیک کو معمول بنانا درست نہیں، البتہ اگر کبھی اتفاقا زکوۃ یا صدقۂ واجبہ کی رقم کسی مستحقِ زکوۃ کو دی جائے، اس کے بعد وہ وہی رقم اپنی خالص دلی رضامندی سے ادارہ کو مذکورہ مقاصد کے لیے دے تو یہ اس کی طرف سے ادارے کو عطیہ ہوگا، بشرطیکہ وہ رقم واپس کرنے پر مجبور نہ ہو، بلکہ اگر وہ اس کو اپنے پاس رکھنا چاہے تو رکھ سکے، رقم واپس نہ کرنے پر اس کو کسی قسم کے دباؤ یا ناگواری کا سامنا نہ کرنا پڑتا ہو۔
اس ادارے کو دینی مدارس پر قیاس کرنا درست نہیں، دینی مدارس (جن میں طلبا رہتے ہیں) میں بوقتِ حاجت حیلۂ تملیک کی گنجائش مستحقِ زکوۃ طلبا ہی کے ایسے مصالح کے لیے دی جاتی ہے جن میں زکوۃ براہِ راست خرچ نہیں کی جاسکتی، مثلا اساتذہ کی تنخواہیں، طلبا کے لیے رہائش گاہوں کی تعمیر وغیرہ، اس تملیک کا مقصد مستحقینِ زکوۃ ہی کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے، اس کے باوجود دینی مدارس کے سلسلے میں بھی اصل حکم یہی بتایا جاتا ہے کہ تملیک کے بعد بھی حتی الامکان ایسی رقوم مستحقِ زکوۃ طلبا کی براہِ راست ضروریات اور حاجات (کھانے، پینے اور کتابیں وغیرہ خرید کر ان کو ملکیتاً دینے) میں خرچ کی جائیں۔ جبکہ آپ کے ادارے کے مذکورہ اخراجات اگرچہ کارِ خیر کے سلسلے میں ہوتے ہیں، لیکن اس کا خاص مستحقینِ زکوۃ سے تعلق نہیں؛ اس لیے یہاں حیلۂ تملیک کو معمول بنانا زکوۃ کے مقاصد کے خلاف ہے۔
حوالہ جات
الدر المختار (2/ 344- 356):
ويشترط أن يكون الصرف ( تمليكا ) لا إباحة كما مر.
حاشية ابن عابدين (2/ 344):
قوله (تمليكا) فلا يكفي فيها الإطعام إلا بطريق التمليك، ولو أطعمه عنده ناويا الزكاة لاتكفي، ط.
تحفة الفقهاء (1/ 307):
وأما إذا قضى دين حي فقير، فإذا قضى بغير أمره يكون متبرعا ولا يقع عن الزكاة، وإن قضى بأمره فإنه يقع عن الزكاة ويصير وكيلا في قبض الصدقة عن الفقير والصرف إلى قضاء دينه، فقد وجد التمليك من الفقير فيجوز.
البحر الرائق (2/ 261):
قوله ( وبناء مسجد وتكفين ميت وقضاء دينه وشراءقن يعتق ) بالجر بالعطف على ذمي والضمير في دينه للميت وعدم الجواز لانعدام التمليك الذي هو الركن في الأربعة ... والحيلة في الجواز في هذه الأربعة أن يتصدق بمقدار زكاته على فقير، ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه الوجوه، فيكون لصاحب المال ثواب الزكاة وللفقير ثواب هذه القرب، كذا في المحيط.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
29/ربیع الثانی/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |