85269 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
1۔اگر عورت خاوند کی اجازت سے کوئی مزدوری یا نوکری کرے ،اس کی اجرت جو عورت کو ملی ہے اس کے کتنے حصہ کا مالک خاوند ہے؟
مسند احمد میں ہے:
"جب خاوند بیوی کی عصمت کا مالک بن جائے تو بیوی خاوند کی مرضی کے بغیر اجازت کچھ بھی نہ کسی دوسرے کو ہبہ کرسکتی ہے ،نہ تصرف کرسکتی ہے،اس دولت میں جو عورت کی ہے۔"
یہاں میں نے یہ سوال کیا تھا کہ نکاح میں رہتے ہوئے جو مزدوری کرے عورت ،مثلا:لڑکیوں کے اسکول میں ملازمہ ہو۔
2۔اگر عورت نے نکاح میں رہتے ہوئے جو مال کمایا ہے کسی رشتہ دار کو ہبہ کرتی ہے اور خاوند منع کردے اور وہ گستاخ بن کر جج کے پاس خلع کی درخواست کرتی ہے اور جج خاوند کی اجازت کے بغیر خلع کی ڈگری عورت کو عطا کردیتا ہے تو عورت کی جمع کردہ رقم اور وہ تنخواہ جو نکاح میں رہتے ہوئے خاوند کے گھر رکھی رہ گئی ہے،اس کا کیا حکم ہے؟
خاوند اس حالت میں ہے کہ عورت گھر چھوڑ کر آوارگی کے ساتھ بھاگ گئی ہے ،واپس آنے سے انکاری ہو،جو رقم چھوڑ کر گئی ہے ،خاوند صدقہ کرے؟خود کھائے؟عورت کو بھیج دے؟
یہاں یہ امر ضر ذکر کرنا ضروری ہے کہ عورت کے بھاگ جانے کے بعد خاوند کئی بار عورت کو گھر لانے اور راضی کرنے کی غرض سے اس کے ہاں جا چکا ہے ،اور بغیر کسی لڑائی جھگڑے،بغیر کسی وجہ گھر چھوڑ جانے والی واپس آنے سے مسلسل انکار کرے،تو اس کی جمع رقم یا تنخواہ کا کیا حکم ہے؟جبکہ عورت جج سے عدالت میں خلع کی ڈگری لے لیتی ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
1۔ شوہر کی اجازت سے جو کچھ بیوی کمائے گی اس پراصولا صرف بیوی ہی کا حق ہے، کیونکہ شریعت نے بیوی پر شوہر کا کوئی مالی حق لازم نہیں کیا ہے،لہذاعام حالات میں شوہر اپنی بیوی کی اجازت کے بغیر اس کی کمائی میں تصرف نہیں کر سکتا،البتہ شوہر کے پاس چونکہ خاتون کو گھر میں روکنے کا اختیار ہوتاہے،اس لیے اگر وہ اس سے دستبرداری کے عوض بیوی سے کچھ رقم کا مطالبہ کرتاہے،اور اس کے بغیر بیوی کو کمائی کےلیے گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دیتا تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
2۔جس قدر کمائی بیوی کے پاس رہ جاتی ہے وہ اس کا حق ہے،کسی کو بھی ہدیہ کرسکتی ہے،تاہم اگر شوہر کو یہ بات پسند نہیں ہے تو بیوی کو اس سے رک جانا چاہیے تاکہ گھر بسا رہے،اگر بیوی اس سے باز نہیں آتی تو شوہر کے پاس یہ اختیار ہے کہ بیوی کو نوکری سے روک دے۔
3۔جو حدیث ذکر کی گئی ہے اس کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ یہ حکم حسنِ معاشرت اور آداب کے قبیل سے ہے،لازمی حکم نہیں ہے،یعنی یہ بتایاگیا ہے کہ یہ مناسب نہیں ہے کہ میاں بیوی ایک ساتھ رہتے ہوں اور بیوی خاوند کا منشاء معلوم کئے بغیر اپنے مال کو خرچ کردے اور اپنے شوہر سے نہ پوچھے۔
4۔محض اس بات پر کہ شوہر نے کسی کو رقم دینے سے منع کیا ہے ،بیوی کےلیے عدالت سے خلع کی ڈگری لینا جائز نہیں ہے اور نہ اس کا اعتبار ہے،اس لیے کہ خلع مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر مالی معاملات معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے اسی طرح خلع معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، لہذا خلع کے لیے شوہر کی رضامندی اور اجازت ضروری ہے، اگر شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر بیوی عدالت سے خلع لے اور عدالت اس کے حق میں یک طرفہ خلع کی ڈگری جاری کردے تو شرعاً ایسا خلع معتبر نہیں ہوتا، اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا، اور ایسی صورت میں عورت کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔
5۔ گھر میں بیوی کے جو پیسے رہ گئے ہیں،یہ بیوی کی ملکیت ہے،شوہر کو اس میں تصرف کااختیار نہیں ہے،بیوی کو واپس کرنا لازم ہے۔
حوالہ جات
وفی البخاری: (حدیث نمبر:1466):
لھا اجران اجر القرابۃ واجر الصدقۃ۔( کتاب الزکاۃ،حدیث نمبر:1466)
مسند احمد: (341/31):
عَنِ الْحُصَيْنِ بْنِ مِحْصَنٍ، أَنَّ عَمَّةً لَهُ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ، فَفَرَغَتْ مِنْ حَاجَتِهَا، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَذَاتُ زَوْجٍ أَنْتِ؟» قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: «كَيْفَ أَنْتِ لَهُ؟» قَالَتْ: مَا آلُوهُ إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ، قَالَ: «فَانْظُرِي أَيْنَ أَنْتِ مِنْهُ، فَإِنَّمَا هُوَ جَنَّتُكِ وَنَارُكِ»
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 520):
وحاصله: أن ثبوت حق الشفعة للشفيع، وحق القسم للزوجة وكذا حق الخيار في النكاح للمخيرة إنما هو لدفع الضرر عن الشفيع والمرأة، وما ثبت لذلك لا يصح الصلح عنه؛ لأن صاحب الحق لما رضي علم أنه لا يتضرر بذلك فلا يستحق شيئا أما حق الموصى له بالخدمة، فليس كذلك بل ثبت له على وجه البر والصلة فيكون ثابتا له أصالة فيصح الصلح عنه إذا نزل عنه لغيره، ومثله ما مر عن الأشباه من حق القصاص والنكاح والرق وحيث صح الاعتياض عنه؛ لأنه ثابت لصاحبه أصالة لا على وجه رفع الضرر عن صاحبه ولا يخفى أن صاحب الوظيفة ثبت له الحق فيه بتقرير القاضي على وجه الأصالة لا على وجه رفع الضرر، فإلحاقها بحق الموصى له بالخدمة، وحق القصاص وما بعده أولى من إلحاقها بحق الشفعة والقسم، وهذا كلام وجيه لا يخفى على نبيه
سید نوید اللہ
دارالافتاء،جامعۃ الرشید
30/ ربیع الثانی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید نوید اللہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |