03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بہن کامیراث میں بھائیوں کے لیےاپنا حصہ چھوڑنے کا حکم
85344میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

سوال:السلام علیکم!کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس  مسئلے کےبارے میں کہ میت نے ترکہ میں زمین چھوڑی جو تین بیٹوں اور  تین بیٹیوں کے درمیان  پٹوارخانے میں سرکاری طور سے تقسیم ہو کر انتقال کر دی گئی،لیکن قبضہ بیٹوں کے ہاتھوں میں ہی رہا اور وہ زمین کو کاشت کے لیے استعمال کرتے رہیں۔چار پانچ سال بعد ایک بہن نے اپنے حصے کی زمین اپنی مرضی سے بغیر کسی عوض کے پٹوارخانےمیں تینوں بھائیوں کو منتقل کردی،لیکن پٹواری صاحب نے اس کے ساتھ عوض بھی لکھا اور اس  منتقل  ہونےپر دو گواہ بھی  بنائے۔

اب یہ بہن دوبارہ اپنا حصہ لینا چاہتی ہے تو کیا یہ اپنا حصہ واپس لے سکتی ہے؟اس زمین کا کیا حکم ہے؟

تنقیح:سائل سے فون پر معلوم ہوا کہ پٹوار خانے میں زمین کی انتقال کی صورت یوں  بنی تھی کہ زمین  والد کے نام سے بچوں کے نام منتقل کی گئی اور کاغذات میں تمام ورثہ کو ان کے حصص کے بقدر  مشترکہ طور پر زمین کامالک قرار دیاگیا،باقاعدہ طور پر حصے اور حدود متعین نہیں کیے گئے اور اس دوران قبضہ بھائیوں کے پاس ہی رہا ،بہن کو قبضہ نہیں دیا گیا تھا۔

البتہ بہن کے ہبہ کرنے سے پہلے اس زمین کا کچھ حصہ حکومت نے موٹروے کےلیے خرید ا تھا جس میں ہر ایک وارث کو اس کے حصے کے بقدر پیسے دیے گئے تھے۔ اس دوران اس بہن نے بھی اپنے حصے کے پیسے وصول کرلیے تھے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ کسی وارث کا اپنے شرعی حصے پرقبضہ کرنے سے پہلےبغیر عوض کے اپنا حق چھوڑنا یا کسی کو ہبہ کرنا شرعا معتبر نہیں ہے۔البتہ اگر کوئی وارث کوئی چیز(خواہ معمولی ہو) لےکر باقی حصے سے دست بردار ہوجائے یاتقسیم اور قبضےکے بعد اپنا حصہ کسی کو ہبہ کرےتو یہ شرعاً جائز ہے۔

       صورت مسئولہ میں چونکہ بہن نے اپنے حصے کی زمین پر قبضہ کرنے سے پہلے ہی اپنا حق بغیر  کسی عوض کے بھائیوں  کے لیے چھوڑ دیا تھاجس کاشرعاًکوئی اعتبار نہیں ہے،اس لیے اس کا حق ختم نہیں ہوا اور اس کو حق حاصل ہے کہ  بھائیوں سے اپنی زمین کا مطالبہ کرے۔

       موٹروے پراجیکٹ میں حکومت کی طرف سے دیے گئے پیسے چونکہ ورثہ کی طرف سے کوئی عوض نہیں ہے، اس لیے اس سے مذکورہ مسئلے پر کوئی  اثر نہیں پڑےگا،لہذا حکومت کی جانب سے دیے گئے پیسے وصول کرنے کے باوجود بھی  بہن کا حق ختم نہیں ہوا اوراسے اپنا حصہ لینے کا اختیار ہوگا۔

حوالہ جات

        قال العلامۃ محمد علاؤ الدین أفندی رحمہ اللہ تعالی:ولو ‌قال: ‌تركت حقي من الميراث، أو برئت منها ومن حصتي لا يصح، وهو على حقه؛ لان الارث جبري لا يصح تركه.( تكملةرد المحتار:8/ 208)

       وقال أصحاب الفتاوی الہندیۃ:إذا كانت التركة بين ورثة، فأخرجوا أحدهما منها بمال، أعطوه إياه والتركة عقار أو عروض صح، قليلا كان ما أعطوه أو كثيرا.( الفتاوى الهندية:4/ 268)

‌        وقال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالی:لو ‌قال ‌الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك.( الأشباه والنظائر، ص:272)

وقال العلامۃ منلا خسرو الحنفی رحمہ اللہ:(قال أحد الورثة: لا دعوى لي في التركة، لا يبطل دعواه)؛لأن ما ثبت شرعا من حق لازم ‌لا ‌يسقط ‌بالإسقاط، كما لو قال لست أنا ابنا لأبي .(درر الحكام:2/ 354)

       وقال العلامۃ علاؤالدین الحصکفی رحمہ اللہ تعالی: (و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول).

( رد المحتار:5/ 688)

      وقال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ تعالی: ومنها:أن يكون محوزا، فلا تجوز هبة المشاع فيما يقسم ،وتجوز فيما لا يقسم كالعبد والحمام.

( بدائع الصنائع:6/ 119)

     وقال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالى: (أخرجت الورثة أحدهم عن) التركة وهي (عرض أو) هي (عقار بمال) أعطاه له (أو) أخرجوه (عن) تركة هي (ذهب بفضة) دفعوها له (أو) على العكس أو عن نقدين بهما (صح) في الكل ؛صرفا للجنس بخلاف جنسه (قل) ما أعطوه (أو كثر). (رد المحتار:5/ 642)

جنید صلاح الدین 

 دار الافتاءجامعۃ الرشید،کراچی

 30/ربیع الثانی 6144ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

جنید صلاح الدین ولد صلاح الدین

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب