03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی کا نام لے کر طلاق،طلاق کہنا
85241طلاق کے احکامصریح طلاق کابیان

سوال

آپ کے سوال کا حاصل یہ ہے کہ :

دسمبر 2021 میں آپ کی شادی ہوئی،آپ کی رخصتی جوائنٹ فیملی میں ہوئی،کچھ عرصہ پہلے آپ کے شوہر کا والدین سے پیسوں کے معاملے میں جھگڑا ہوا جو گھوم پھر کر آپ کی طرف آگیا،جس کے نتیجے میں شوہر نے آپ پر ہاتھ اٹھایا،جھگڑے کے دوران آپ اپنے کمرے چلی گئیں،آپ کا شوہر آپ کے پیچھے کمرے میں آیا اور یہ الفاظ بولے:فائزہ!طلاق،طلاق اور منہ پھیرلیا،یعنی دو بار طلاق کا لفظ آپ نے سنا،تیسری بار نہیں سنا،نیز پورا جملہ بھی نہیں بولا،بلکہ صرف طلاق طلاق کے الفاظ بولے اور خاموش ہوگئے۔

آپ کے بڑے بھائی نے جب آپ کے شوہر سے طلاق کے متعلق سوال کیا کہ اس نے کیا بولا ہے؟ توآپ کے شوہر نے جواب دیا کہ اکرام بھائی! میں نے دو بار یہ لفظ بول کر دل میں نعوذ باللہ بولا ہے،میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔

اس کے بعدآپ کے بھائیوں نے آپ کو میکے چلنے کو کہا توآپ کے شوہر نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ اگر تم لوگ اسے لے کر جاؤگے تو میرے گھر والے مجھے اسے چھوڑنے پر زور دیں گے،اور آپ  لوگوں کے اسے لے جانے کی صورت میں میں کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ہوں گا،جس پر آپ کے بھائی  آپ کونہیں لے کر گئے۔

بھائیوں کے جانے کے بعد نند اور اس کا شوہرآپ کے کمرے میں آکر کہنے لگے کہ ابھی تمہارا شوہر غصے میں ہے،کہیں بات خراب نہ ہوجائے،اس لئے بہتر یہ ہے کہ ہم آٹھ دس دن کے لئے آپ کو آپ کے گھر چھوڑ کر آتے ہیں،آپ نے میکے جانے سے انکار کیا،لیکن پھر نند نے جانے پر اصرار کیا اور بولی کہ میں ذمہ داری لیتی ہوں کہ آٹھ دس دن بعد ہم خود تمہیں لینے آئیں گے۔

بہر حال 29 اگست کی رات بارہ ساڑھے بارہ بجے آپ کی نند اور اس کا شوہر آپ کو اور آپ کی بچی کو آپ کے والدین کے گھر چھوڑ کر چلے گئے،اب ایک ماہ چوبیس دن سے آپ اپنے والد کے گھر پر ہیں،شوہر فون پر کہتا ہے کہ اس نے الگ گھر لے کر تمہارے ساتھ رہنا ہے،لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں،اس دوران دو دفعہ  آپ کےپیریڈ گزرچکے ہیں۔

ابھی کوئی پانچ چھ دن پہلےآپ کے بہنوئی کی آپ کے شوہر سے فون پر بات ہوئی تو آپ کا شوہر بھائیوں کے سامنے کہی ہوئی بات سے مکر گیا اور بولا کہ میں نے ایسا کچھ بھی نہیں بولا،میری بیوی اور سالے جھوٹ بول رہے ہیں۔

نوٹ:پہلے جاری شدہ فتوی کی فوٹوکاپی ساتھ میں لف ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ مفتی غیب کا علم نہیں جانتا،وہ پوچھے گئے سوال کے مطابق جواب دیتا ہے،اس کے بتانے سے حلال چیز حرام اور حرام چیز حلال نہیں ہوجاتی،لہذا اگر سوال حقیقی صورت حال کے مطابق نہ ہو تو دیا گیا جواب اس پر منطبق نہیں ہوگا۔

چند دن قبل بھی آپ کی طرف سے سوال آیا تھا،جس میں تصریح تھی کہ شوہر نے تین بار طلاق کے الفاظ بولے ہیں،لیکن اب آپ کا کہنا ہے کہ آپ نے دو دفعہ طلاق کے الفاظ سنے ہیں، آپ کے بھائی نے غلطی سے سابقہ استفتاء میں تین دفعہ لکھ دیئے تھے،لہذا اگر موجودہ استفتاء میں بیان کی گئی تفصیل حقیقت پر مبنی ہے کہ آپ کے شوہر نےطلاق کے الفاظ صرف دو مرتبہ بولے تھے،تیسری مرتبہ اس نے طلاق کا لفظ نہیں بولا تو پھر مذکورہ صورت میں دو رجعی طلاقیں واقع ہوئی ہیں،جن کے بعد عدت کے دوران شوہر کو زبانی یا عملی طور پر رجوع کا حق حاصل ہے،تجدیدِ نکاح کی ضرورت نہیں،لیکن اگر عدت (تین ماہواریاں)گزرنے سے پہلے شوہر نے رجوع نہیں کیا تو پھر عدت گزرنے کے بعد ساتھ رہنے کے لئے نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرنا پڑے گا۔

نیز جب آپ نے اپنے کانوں سے شوہر کی زبان سے طلاق کے الفاظ دو مرتبہ سنے ہیں اور آپ کے شوہر نے آپ کے بھائیوں کے سامنے دو دفعہ طلاق کے الفاظ بولنے کا اقرار بھی کیا ہے تو اب اس کے اپنی بات سے مکرنے کا شرعا کوئی اعتبار نہیں۔

حوالہ جات

"الفتاوى الهندية" (1/ 354):

" والمرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا سمعت منه ذلك أو شهد به شاهد عدل عندها".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

30/ربیع الثانی1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب