03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرض چکانے کے لئے ادھار معاملہ کرنے  کا حکم 
85291خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ مثلاً ،زید نے ایک عدد موٹر سائیکل عمرو پر ایک سال کے ادھار پر فروخت کی۔ جب سال پورا ہوا تو عمرو عوض ادا کرنے کے لیے روپے نہ ہونے کی وجہ سے زید کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے ایک اور موٹر سائیکل سال کے قرض پر دیدو ،میں اس کو بازار میں کم قیمت میں فروخت کروں گا اور آپ کا پرانا قرض ادا کرونگا اور آپ کو نفع بھی ملے گا ،تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ صورت جائز ہے؟ اگر یہ جائز نہیں تو اگر اس کے لیے یہ حیلہ اختیار کیا جائے کہ عمرو کسی سے قرض لیکر زید کو پرانا قرض ادا کردے، اس کے بعدزیدکے ساتھ نیا سودا کرےتو کیا یہ جائز ہوگا؟ واضح رہے کہ عمرو نیا سودا صرف زید کے قرض کی وجہ سے کرتا ہے، اس کو ضرورت نہیں۔ تو کیا یہ قرض سے فائدہ اُٹھانا نہیں ہے؟ اور کیا یہ سود خوروں کے حیلوں میں سے ایک حیلہ نہیں ہے؟ 

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ معاملہ فقہ کی اصطلاح میں "قلب الدین" کا معاملہ کہلاتا ہے یعنی کسی شخص کے ذمہ قرض ہو اور وہ اس کو چکانے کے لئے قرض دینے  والے کے ساتھ عقد بیع پر مشتمل ایسا معاملہ کرے جس کے نتیجے میں قرض کی مدت بڑھ جائے اور قرض کی رقم میں کچھ اضافہ بھی ہو جائے۔ مالکی اور حنبلی فقہاء نے اس طرح کے معاملے کو مطلقاً ناجائز قرار دیا ہے۔ جبکہ احناف کے نزدیک اس معاملے میں تفصیل ہے: اگر نئے معاملے میں سابقہ قرض چکانا یا اس میں مہلت دینا شرط کیا گیا ہو تو یہ معاملہ جائز نہیں اور اگر یہ شرط نہیں لگائی ،بلکہ دوسرا عقد بغیر اس شرط کے کیا ہے اور مشتری پر کوئی دباؤ بھی نہیں کہ وہ اس معاملہ سے حاصل ہونے والی رقم کو قرض چکانے میں ہی استعمال کرے گا، تو یہ معاملہ جائز ہے بشرط یہ کہ دوسرے عقد میں ادھار کی قیمت قدر معروف (مارکیٹ ریٹ ) سے زائد نہ ہو۔ قدر معروف سے زائد ہونے کی صورت میں بھی یہ معاملہ جائز نہیں ہوگا، کیونکہ اس سے یہ لازم آئے گا کہ خریدار سابقہ قرض کی وجہ سے ہی اضافی رقم دینے پر راضی ہوا ہے اور یہ قرض پر منفعت حاصل کرنا شمار ہوگا۔ یہ معاملہ احناف میں سے امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب "الحجۃ علی اھل المدینۃ "میں ذکر کیا ہے۔
سوال میں مذکور پہلی صورت تو اس معاملہ پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے،کیونکہ خریدار خود یہ اظہار کر رہا ہے کہ اس معاملہ سے حاصل ہونے والی رقم سے سابقہ دین چکائے گا ،اور اوپر یہ بیان کیا گیا کہ اگر دائن کے ساتھ دوسرا عقد کرتے وقت سابقہ دین چکانے کی شرط ہو تو یہ عقد احناف کے نزدیک بھی جائز نہیں ہے۔سوال میں مذکور دوسری صورت میں "قلب الدین "کا معاملہ اگر چہ اپنی مکمل صورت میں موجود نہیں ہے کیونکہ جب عمرو نے اپنا دین کسی تیسرے شخص سے قرض لے کر ادا کردیا تو سابقہ دین باقی ہی نہیں رہا ،اس لئے اب اگر زید سے بیع کا عقد کرتا ہے تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔ لیکن بہتر صورت یہ ہے کہ اس معاملہ کے لئے زید کے بجائے کسی اور شخص کا انتخاب کیا جائے تاکہ کسی قسم کاشبہ باقی نہ رہے۔البتہ قرض کے بارے میں اسلامی تعلیمات اور  مروت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر مقروض تنگدست ہے تو اسے مہلت دی جائے اور مختلف طریقے اپنا کر ان کے استحصال سے بچا جائے۔تنگدست کو مہلت دینے کے بے شمار فضائل قرآن و حدیث میں وارد ہوئے ہیں ، اس لئے مسلمان کو چاہئے کہ دنیا کی معمولی دولت کے بجائے آخرت کا حقیقی فائدہ پیش نظر رکھے۔

حوالہ جات

[البقرة: 280] 
﴿وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (280)﴾
«صحيح مسلم» (3/ 1194 ت عبد الباقي):
«حدثنا أحمد بن عبد الله بن يونس. حدثنا زهير. حدثنا منصور عن ربعي بن حراش؛ أن حذيفة حدثهم قال:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (تلقت الملائكة روح رجل ممن كان قبلكم. فقالوا: أعملت من الخير شيئا؟ قال: لا. قالوا: تذكر. قال: كنت أداين الناس. فآمر فتياني أن ينظروا المعسر ويتجوزوا عن الموسر. قال: قال الله عز وجل: تجوزوا عنه).»
«الحجة على أهل المدينة» (2/ 694):
«محمد قال قال أبو حنيفة رضي الله عنه في الرجل يكون له على الرجل مائة دينار الى اجل فإذا حلت قال له الذي عليه الدين بعنى سلعة يكون ثمنها مائة دينار نقدا بمائة وخمسين الى اجل ان هذا جائز لانهما لم يشترطا شيئا ولم يذكرا امرا يفسد به الشراء وقال أهل المدينة لا يصلح هذا قال محمد ولم لا يصلح هذا أرأيتم من كان له على رجل دين فقد حرم الله عليه ان يبيعه منه شيئا يربح عليه فيه قالوا لأنا نخاف ان يكون هذا ذريعة الى الربا قيل لهم وانتم تبطلون بيوع الناس بالتخوف ما تظنون من غير شرط اشترطه ولا بيع فاسد معروف فسادهالا بما تظنون وترون رجل كان يبايع رجلا بيوعا كثيرة وكان خليطا له معروفا بذلك وجب له عليه دين ثم باعه بعد ذلك سلعة تساوي بالنقد مائة دينار بمائة دينار وخمسين دينارا إلى اجل وهل هكذا يتبايع الناس لانهم إذا اخروا ازدادوا ما بأس بهذا لئن حرم هذا على الناس انه لينبغي ان يكون عامة البيوع حراما قالوا نرى انه انما باعه لمكان دينه قيل لهم انهما لم يتذاكرا الدين بقليل ولا كثير قالوا قد علمنا انهما لم يتذاكرا الدين بقليل ولا كثير ولكنا نخاف ان يكون البيع كان بينهما من اجل ذلك قيل لهم ارايتم لو اجزتم البيع كما نجيزه اما كان لصاحب الدين ان يأخذ دينه من صاحبه وقد حل قالوا بلى له ان يأخذ دينهقيل لهم فإذا كان له ان يأخذ دينه كان البيع جائزا فباي وجه ابطلتم بيعه ينبغي لكم ان تقولوا من كان له على رجل دين فليس ينبغي له ان يبايعه بشيء يربح عليه فيه فاي امر اقبح من هذا ان رجلا يعامل الناس له عليهم ديون انه لا يجوز ان يبيع منه متاعا ولا جارية ولا شيئا يربح عليه فيه ما ينبغي ان يسقط هذا على مثلكم ولا ينبغي ان تبطل البيوع بالظنون والظن يخطيء ويصيب»
«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (5/ 167):
«وفيها شراء الشيء اليسير بثمن غال لحاجة القرض يجوز ويكره وأقره المصنف.
قال ابن عابدين رحمه الله: (قوله يجوز ويكره) أي ‌يصح ‌مع ‌الكراهة وهذا لو الشراء بعد القرض لما في الذخيرة، وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، ولكن اشترى المستقرض من المقرض بعد القرض متاعا بثمن غال، فعلى قول الكرخي لا بأس به وقال الخصاف: ما أحب له ذلك وذكر الحلواني أنه حرام، لأنه يقول لو لم أكن اشتريته منه طالبني بالقرض في الحال، ومحمد لم ير بذلك بأسا وقال خواهر زاده: ما نقل عن السلف محمول على ما إذا كانت المنفعة مشروطة وذلك مكروه بلا خلاف.

اسامہ مدنی
دارالافتا ء جامعۃالرشید،کراچی
01/ جمادی الاولی/6144ھ 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

اسامہ بن محمد مدنی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب