03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کی اجازت سے مشترکہ مکان پر تعمیر کرنے کا حکم
85293میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میرے سوال کا پس منظر یہ ہے کہ ہم چار بہن بھائی ہیں۔ میری ایک شادی شدہ بہن جو اپنے شوہر کے ساتھ اپنے گھر میں مقیم ہے۔میں (بلال) اپنے والدین کے ساتھ اپنے والد صاحب کی ملکیت کے حامل ایک فلیٹ میں رہائش پذیر ہوں۔ مذکورہ فلیٹ کے دو حصے ہیں ،ایک حصہ مکمل تعمیر ہے ،جس میں میرے والدین ایک میرا چھوٹا بھائی اس کی فیملی اور ایک میری غیر شادی شدہ بہن کی رہائش ہے ۔دوسرا حصہ فلیٹ کی چھت پر سیمنٹ چادرکی عارضی کنسٹرکشن کا ایک کمرہ، برآمدہ اور ایک واش روم تعمیر ہے ،جو کہ تقریبا منہدم ہونے کی حالت میں ہے ،جہاں میں اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہوں۔ بنیادی سوال  یہ ہے ،کہ اگر میں اپنے پیسے لگا کر اس اوپر کی منزل پر ایک کمرہ ،واش روم اور کچن وغیرہ بنانا چاہوں، تو اس کی شریعت کی روسے کیا حیثیت ہوگی ؟آیا میرے بنانے کی لاگت گھر کی شرعی تقسیم کے وقت منہا کی جائے گی یا یہ گھر کی پوری لاگت میں شامل کر کے تمام ورثہ میں شریعت کی روسے تقسیم کی    جائے گی ؟برائے مہربانی اس بات پر میری رہنمائی فرما ئیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ  اگر والد کی زندگی میں   آپ والد کی اجازت  سے    اوپر کی منزل پر ایک کمرہ ، واش روم  اور کچن کی تعمیر  کر رہے ہیں، تو زمین والد کی ملک ہوگی اور   مذکورہ چیزیں آپ کی ملکیت ہوںگی ۔لیکن  والد کی وفات کے بعد  مذکورہ چیز یں  جو آپ نے تعمیر کی ہیں  ،اس میں میراث جاری نہیں ہوگی لیکن تقسیم میراث کے وقت   آپ کو صرف ملبہ کی  قیمت ملے گی     ۔ ہاں اگر آپ کے بھائی  مارکیٹ ویلیو کے اعتبار سے پیسے دےکر احسان کامعاملہ کرنا چاہیں تو یہ ان کے لئے بہتر ہے،اس پر ان کو اجر ملے گا  ۔

حوالہ جات

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (2/ 81):

(سئل) في رجل بنى بماله لنفسه قصرا في دار أبيه بإذنه ثم مات أبوه عنه وعن ورثة غيره فهل يكون القصر لبانيه ويكون كالمستعير؟

(الجواب) : نعم كما صرح بذلك في حاشية الأشباه من الوقف عند قوله كل من بنى في أرض غيره بأمره فهو لمالكها إلخ ومسألة العمارة كثيرة ذكرها في الفصول العمادية والفصولين وغيرها وعبارة المحشي بعد قوله ويكون كالمستعير فيكلف قلعه متى شاء.

حاشية ابن عابدين (6/ 747):

قوله ( عمر دار زوجته الخ ) على هذا التفصيل عمارة كرمها وسائر أملاكها جامع الفصولين . وفيه عن العدة كل من بنى في دار غيره بأمره فالبناء لآمره ولو لنفسه بلا أمره فهو له وله رفعه إلا أن يضر بالبناء فيمنع ولو بنى لرب الأرض بلا أمره ينبغي أن يكون مبترعا كما مر إ هـ…. قوله ( والنفقة دين عليها ) لأنه غير متطوع في الإنفاق فيرجع عليها لصحة أمرها فصار كالمأمور بقضاء الدين ، زيلعي ، وظاهره وإن لم يشترط الرجوع، وفي المسألة اختلاف وتمامه في حاشية الرملي على جامع الفصولين قوله ( فالعمارة له ) هذا لو الآلة كلها له فلو بعضها له وبعضها لها فهي بينهما ط عن المقدسي قوله ( بلا إذنها ) فلو بإذنها تكون عارية ط.

شرح المجلة للاتاسي(3/: (336

قلت : وحاصل ما ذكروه ان هذه المسئلة على أربعة أوجه ، لأنها اما غير موقتة او موقتة ، وعلى كل فاما ان لا يضر القلع بالأرض ، أو يضر ۔ففي الصورة الأولى ، وهي ما اذا كانت غير موقتة والقلع لا يضر ، يؤمر المستعير بالقلع ولا يضمن له المعير شيئا ، لان المستعير مغتر لا مغرور .

الثانية ان تكون غير موقتة والقلع يضر ،فالمعير مخير بين ان يتملك البناء والغرس بقيمتهما مقلوعين ، و بين ان يكلف القلع ولا ضمان عليه.

عطاء الر حمٰن

دارالافتاءجامعۃالرشید ،کراچی

02   /جمادی الاولٰی /1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عطاء الرحمن بن یوسف خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب