85282 | طلاق کے احکام | الفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان |
سوال
میرے اور بیوی کے درمیان کچھ ناچاقی ہو گئی تھی تو بیوی کو اس کے ماں باپ اپنے ساتھ گھر لے گئے،یہ 2 جون 2024 کا واقعہ ہے۔
پھر ایک دن اچانک میرے والد صاحب نے کہا کہ صبح عدالت سے طلاق نامہ بناکر بھیجنا ہے،15 جولائی 2024 کو میرےوالد صاحب مجھے لے گئے اور طلاق کے پیپر تیار کروائے،مجھے دستخط کا کہا تو میں نے منع کیا تو انہوں نے پھر کہا: نہیں!دستخط کرو،پھر میں نے بات کو ٹالنے کے لیے کہا کہ گھر جا کر کرتے ہیں،لیکن وہ نہیں مانے اور کہا ادھر ہی کچہری میں دستخط کرو، آس پاس بہت سے لوگ تھے،جہاں والد کی عزت رکھنے اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے مجبور ہو کر میں نے دستخط کر دیئے،لیکن اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میری رضامندی اور نیت شامل نہ تھی اور نہ ہی میں نے طلاق کے الفاظ زبان سے دہرائے،بس والد صاحب کی عزت،مقام اور خوف کی وجہ سے وہ دستخط کیے اور اس کے بعد طلاق نامہ TCS کرنے سے بھی منع کیا،لیکن وہ بھی والد صاحب نے اصرار کر کے بھجوا دیا،اگلے دو دن کے اندر TCS کے دفتر جا کر طلاق نامہ کینسل کروایا،یعنی لڑکی تک نہیں پہنچایا اور نہ ہی لڑکی والوں کو اس بارے میں کوئی علم ہے ۔
تو کیا یہ طلاق ہوئی یا نہیں ہوئی؟کیونکہ میری مرضی نہیں تھی والد صاحب کے سامنے مجبور ہو کر دستخط کئے تھے۔
یہاں میں ایک اور بات کا اضافہ کرنا چاہوں گا کہ میرے دستخط کچہری میں اسی وقت کروائے اور راستے میں واپس آتے ہوئے ایک دفتر سے گواہوں کے دستخط کروائے گئے،لیکن والد صاحب نے مجھے اپنے ساتھ دفتر کےاندر جانے سے منع کیا اور میں باہر انتظار کرتا رہا، شاید ان کو لگا کہ اندر گواہ مجھ سے میری رضامندی پوچھیں تو میں انکار نہ کردوں۔
تنقیح:طلاق نامے میں طلاق کے لئے یہ جملہ تین مرتبہ لکھا گیا ہے:"میں مسماة نمبرہ محمود کو طلاق دیتا ہوں"۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
چونکہ طلاق دینے کا اختیار شرعی لحاظ سے شوہر کے پاس ہے،اس لئے طلاق واقع ہونے کے لئے بیوی کو اس کے بارے میں معلوم ہونا شرط نہیں ہے۔
اورسوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق آپ پر کوئی ایسا جبر،دباؤ اور زبردستی بھی نہیں معلوم ہورہی کہ جس کی وجہ سے آپ طلاق نامے پر دستخط کرنے پر مجبور ہوگئے ہوں،محض والد صاحب کے کہنے پر آپ نے طلاق نامہ پر دستخط کردیئے،اس لئے تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،جس کے بعد موجودہ حالت میں آپ دونوں میاں بیوی کا دوبارہ نکاح بھی ممکن نہیں ہے۔
حوالہ جات
"بدائع الصنائع " (3/ 100):
"وكذا التكلم بالطلاق ليس بشرط فيقع الطلاق بالكتابة المستبينة وبالإشارة المفهومة من الأخرس ؛لأن الكتابة المستبينة تقوم مقام اللفظ والإشارة المفهومة تقوم مقام العبارة".
"الدر المختار " (3/ 246):
"كتب الطلاق، وإن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل مطلقا، ولو على نحو الماء فلا مطلقا. ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب جوهرة".
قال ابن عابدین رحمہ اللہ: "(قوله كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة".
{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ} [البقرة: 230]
"صفوة التفاسير" (1/ 131):
"{فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} أي فإن طلق الرجل المرأة ثالث مرة فلا تحل له بعد ذلك حتى تتزوج غيره وتطلق منه، بعد أن يذوق عسيلتها وتذوق عسيلته كما صرح به الحديث الشريف، وفي ذلك زجر عن طلاق المرأة ثلاثا لمن له رغبة في زوجته لأن كل شخص ذو مروءة يكره أن يفترش امرأته آخر .
{فإن طلقها فلا جناح عليهمآ أن يتراجعآ إن ظنآ أن يقيما حدود َﷲ} أي إن طلقها الزوج الثاني فلا بأس أن تعود إلى زوجها الأول بعد انقضاء العدة إن كان ثمة دلائل تشير إلى الوفاق وحسن العشرة".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
02/جمادی الاولی1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |