85278 | دعوی گواہی کے مسائل | متفرّق مسائل |
سوال
میں سن 1993 میں دبئی روزگار کے سلسلے میں گیا ،سن 2000 میں واپس آگیا، ان سات سال میں میں نے اچھا پیسہ کمایا ،15 ہزار گھر کا خرچ پابندی سے بھیجتا رہا، اس کے علاوہ جو میرے پاس پیسے جمع ہو جاتے تھے ایک لاکھ ڈیڑھ لاکھ 50 ہزار وہ بھی میں والدہ کے پاس بھیجا کرتا تھا، اس دوران میں نے کراچی کے تین چکر لگائے پہلے چکر میں سامان بہت لایا ،اس میں تین تولہ سونے کاکانوں کے جھمکے لایا جو والدہ سے پہنے نہیں جاتے تھے تو میں نے کہا کہ آپ اس کے کڑے بنوا لیں، والدہ کے پاس 15 گرام کی چوڑی تھی وہ شامل کر کے کڑے بنوا لیے دوسرے چکر میں 32 گرام کا لاکٹ 26 گرام کی چین لایا ،تیسرے چکر میں چوڑیوں کا ایک سیٹ پسند آگیا 10 تولے کا جس میں دو کنگن چھ چوڑیاں شامل ہیں، 10 تولے سے نیچے4،5 تولہ تو بغیر انٹری کے لا سکتے ہیں 10 تولہ ہو یا اس سے اوپر وہ پاسپورٹ میں انٹر کیا جاتا ہے، دبئی جانے سے پہلے میرا 8مشینوں کا کارخانہ موجود تھا جو میں اپنے چھوٹے بھائی کے حوالہ کر کے گیا تھا، سن 2000 میں واپس آگیا اور اپنا کارخانہ دوبارہ شروع کیا جو میری مشینیں تھی وہ تو 17 ہو گئی تھیں 13 کاریگر کام کر رہے تھے،جن میں چھوٹا بھائی بھی شامل تھا،چالیس ہزار ہر ہفتہ کاریگروں میں بانٹتا تھا ،12 فروری 2004 میں میری شادی ہو گئی، والد کی اچانک طبیعت خراب ہو گئی تو میں والد کی دیکھ بھال میں لگ گیا، کاروبار سے توجہ ہٹ گئی تین ماہ کے دوران میں کارخانے نہیں گیا ،میرا بھانجا سب کاریگروں کے حساب کی کاپی لا کر دیا کرتا تھا، میں حساب کر کے ہر کاریگر کے پیسے اس کی کاپی میں رکھ کر دیا کرتا تھا ان چار سال کے عرصے میں جو پرافٹ ہوتا تھا دو ڈھائی ماہ میں خرچے کے علاوہ گھر کے خرچے کے 80 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ کے درمیان وہ والدکے پاس رکھوا دیا کرتا تھا جو والد صاحب اپنی ڈائری میں لکھ لیا کرتے تھے، والد کے انتقال کے بعد کافی عرصے میں ڈسٹرب رہا ،کاروبار تقریبا خراب ہو گیا، گھر میں خرچہ تو دیتا رہا مگر اس طرح نہ دے سکا جس طرح والد صاحب کو دیا کرتا تھا، گھر میں بھائیوں نے سازشیں شروع کر دیں، کیونکہ پیسہ اور زیور انہی کے پاس تھا، پانچ سال گھر میں گزارنا مشکل ہوگیا ،میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ میں کرائے کے گھر کا ایڈوانس دے سکوں تو میں نے بیگم کو اس کی والدہ کے ہاں چھوڑا ،ایک ڈیڑھ ماہ کے بعد میرے پاس کچھ پیسےکا بندوبست ہوا تو میں نے کرائے کا گھر لے لیا، ایک مشین میں لے گیا تھا دل نہیں لگتا تھا کام میں، ایک ڈیڑھ مہینے بعد میں والدہ سے ملنے گیا معلوم ہواکہ چھوٹے بھائی نے چھپ کے شادی کی ہوئی تھی ،وہ اسے گھر لانا چاہتا تھا تو سازش کے تحت مجھے نکالا گیا، مجھے بہت غصہ آیا، کیونکہ میں نے شادی سے پہلے دو لاکھ 10 ہزار لگا کر گھر بنوایا تھا نیچے کمرہ اپنے لیے اوپر کی چھت اور ایک کمرہ اضافی بنوایا تھاتاکہ گھر میں والدہ کو پریشانی نہ ہو، میں نے والدہ سے کہا کہ مجھے میرا سونا اور وہ پیسے جو والد کے پاس رکھوا یاکرتا تھا وہ مجھے دو،جس پرلڑائی ہوئی،یہاں تک کہ ہاتھا پائی بھی ہوئی،اس کے بعد میں گھر سے واپس اپنے کرائے کے گھر چلا گیا، پھر میں نے اپنے کام پر توجہ دینا شروع کی تو کام بہتری کی طرف آنے لگا ،حاصل یہ ہے کہ مارکھانے کے باوجود بھی میں والدہ سے ملنے جاتا رہا ،پھر میں نے والدہ سے کہا کہ ایک مشین دے دو، پھر وہی بہن بھائی بیچ میں آگئے اور کہنے لگے کہ کوئی مشین نہیں ہے ،میں واپس چلا گیا چار پانچ دن بعد پیغام آیا کہ مشین لے جاؤ تو میں مشین لینے آیا اور بھرپور توجہ سے کام شروع کیا اللہ سبحانہ و تعالی نے ترقی دی پھر 11،12مشینیں ہو گئی، تقریبا ڈھائی تین سال میں، میں نےنو لاکھ جمع کر کے نالے پر ایک گھر خریدا، بیگم کو نیا فرنیچر دلوایا، پھر گھر جا کر والدہ کو بتایا میں نےنالے پر گھر لے لیا، والدہ ناراض ہوئی کہ نالے پر کیوں لیا؟ میں نے کہا :میں کیا کرتا؟ میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے ،والدہ نے کہا مجھ سے لے لیتے، میں نے کہا 25 ۔26 لاکھ کا ملتا، والدہ نے کہا 15 لاکھ تو مجھ سے لے لیتے، میں نے کہا پہلے کیا سلوک ہوا تھا میرے ساتھ ؟بہرحال میں ہر ہفتے والدہ سے ملنے جاتا رہا، پھر والدہ کی طبیعت زیادہ خراب رہنے لگی تو میں ان کو ڈاکٹروں اور حکیموں کے پاس لے کر جاتا رہا، پھر والدہ نے اسی دوران مجھے بتایا کہ 27 لاکھ روپے بچے ہوئے ہیں جووالد نے والدہ کو دیےتھے ،12دن کے بعد والدہ کا انتقال ہو گیا ،2016 میں پھر والد والا گھر بیچ کر احسن آباد میں گھر لے لیا، ہم سے دو لاکھ کا مطالبہ کیا وہ میں نے دے دئیے اب ہم وہاں پر مقیم ہیں ،ان کی زیادتیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے معلوم یہ کرنا ہے کہ سونے اور پیسوں پر میرا حق ہے یا نہیں میرا پاسپورٹ بھی انہی کے پاس ہے، کیونکہ اس میں سونے کی انٹری ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
والدہ کوسونا اوروالد کورقم دیتے وقت آپ نے بتادیاتھاکہ یہ سونا اورنقدی صرف استعمال کے لئے دیاجارہاہے ،مالک بناکرنہیں تواس صورت میں اس سونااورنقدی کےآپ مالک ہیں اورآپ کے لئےسونے اورنقدی کامطالبہ کرنا درست ہے،بشرطیکہ دیگرورثہ آپ کے دعوی کوتسلیم کریں،اوراگربہن بھائی آپ کے دعوی کوتسلیم نہ کریں توایسی صورت آپ کواپنےدعوی پردوگواہ پیش کرناضروری ہے،اگرآپ اپنے دعوی پرگواہ پیش کردیتے ہیں تب بھی آپ کاحق ثابت ہوجائے گااورآپ ہی اس سونے اورنقدی کے مالک شمارہوں گے اوراگرآپ کے پاس اپنے دعوی پرگواہ نہ ہوں اوربہن بھائی آپ کے دعوی کوتسلیم بھی نہیں کرتےتواس صورت میں ورثہ سے قسم لی جائے گی کہ ان کواس قرض کاعلم نہیں اورنہ ہی مرحوم اورمرحومہ نے ان کوبتایاہے،اگربہن بھائی قسم اٹھانے سےانکارکردیں تو آپ کادعوی ثابت ہوجائے گا اوراگربہن بھائی قسم اٹھالیں توآپ کادعوی ختم ہوجائے گا اورآپ کے لئے زیوراوررقم کےمطالبہ کاحق نہیں ہوگا،یہ سونااوراورنقدی ترکہ میں شامل ہوکرسب ورثہ میں تقسیم ہوگی۔
حوالہ جات
وفی بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (ج 14 / ص 158):
وأما حجة المدعي والمدعى عليه فالبينة حجة المدعي واليمين حجة المدعى عليه لقوله عليه الصلاة والسلام "البينة على المدعي واليمين على المدعى عليه" جعل عليه الصلاة والسلام البينة حجة المدعي واليمين حجة المدعى عليه والمعقول كذلك لأن المدعي يدعي أمرا خفيا فيحتاج إلى إظهاره وللبينة قوة الإظهار لأنها كلام من ليس بخصم فجعلت حجة المدعي واليمين.
فی الفتاوى الهندية (ج 25 / ص 22):
وإن لم تكن للمدعي بينة وأراد استحلاف هذا الوارث يستحلف على العلم عند علمائنا - رحمهم الله تعالى - بالله ما تعلم أن لهذا على أبيك هذا المال الذي ادعى وهو ألف درهم ولا شيء منه . إن حلف انتهى الأمر وإن نكل يستوفى الدين من نصيبه۔
محمد اویس
دارالافتاء جامعة الرشید کراچی
۳/جمادی الاولی۱۴۴۶ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |