85364 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | کرایہ داری کے جدید مسائل |
سوال
ایک لڑکے کے پاس پانچ سے سات طلباء روزانہ تکرار کرتے ہیں، ان میں سے ایک لڑکا مالی طور پر بہت اچھا ہے، تکرار کروانے والا لڑکا اس طالب علم سے رقم لیتا ہے اور اپنی ضرورت کی چیزیں بھی اس سے منگواتا ہے، جیسے کپڑے، ہوٹل پر روزانہ ناشتہ اور کبھی کبھار کھانا وغیرہ۔ یہ لڑکا جس طالب علم سے پیسے لیتا ہے وہ تھوڑا سا کم عقل ہے، پوچھنا یہ ہے کہ کلاس میں اورلڑکے بھی تکرار کرواتے ہیں، کیا وہ بھی تکرار کے بدلے رقم کی وصولی کر سکتے ہیں؟ یہ لڑکا دوسروں سے کہتا ہے کہ پیسے دو، ورنہ میں تکرار نہیں کرواؤں گا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اصولی طور پر تکرار کروانا تعلیم دینےکاعمل ہے اور دینی تعلیم دینے پر حنفیہ کے مفتی بہ قول کے مطابق اجرت لینا جائز ہے، البتہ مذکورہ صورت میں تکرار کروانے پر اجرت لینا درج ذیل دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے:
پہلی شرط: مذکورہ طلباء چونکہ جامعہ میں تکرار کرواتے ہیں، جس میں جامعہ کی عمارت، بجلی، پنکھے اور لائٹیں وغیرہ استعمال ہوتی ہیں اور جامعہ ایک وقف ادارہ ہے،اس لیےانتظامیہ کی اجازت کے بغیراس کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں، لہذا اگر یہ طلباء تکرار کروانے کی اجرت لینا چاہتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ جامعہ سے باہر کسی جگہ کا انتخاب کریں اور وہاں تکرار کروایا کریں یا یہ کہ اس کام کے لیے جامعہ کی انتظامیہ سے باقاعدہ تحریری اجازت لے لیں۔
دوسری شرط: اجرت لینے کے لیے باقاعدہ اجارہ کا معاملہ کرنا اور اجرت طے کرنا ضروری ہے، ورنہ اجرت مجہول ہونے کی وجہ سے اجارہ کا معاملہ فاسد اور ناجائز ہو گا، جس کو ختم کرنا فریقین کے ذمہ لازم ہو گا۔
مذکورہ بالا شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو تکرار کروانے کے لیے اجرت لینا جائز نہیں ہو گا، لہذا ابھی تک تکرار کروانے والے طالب علم نے دوسرے طالب علم سے جو رقم یا ہدایہ وغیرہ وصول کیا ہے اس میں چونکہ یہ شرائط موجود نہیں تھیں، اس لیے اس طالب علم کو تکرار کروانے کے عوض پیسوں اور ناشتہ وغیرہ کے مطالبے کا حق حاصل نہیں تھا، لہذا آئندہ کے لیے اس فعل سے اجتناب کرنا لازم ہے۔
حوالہ جات
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (2/ 1489) دار الفكر - سوريَّة – دمشق:
ولا يجوز أخذ الأجرة على الطاعة. وهذا رأي المتقدمين، وأجاز المتأخرون أخذ الأجرة على الطاعات للضرورة.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 417) دار الفكر-بيروت:
إن المتقدمين منعوا أخذ الأجرة على الطاعات، وأفتى المتأخرون بجوازه على التعليم والأذان والإمامة فالظاهر أن من نظر إلى مذهب المتقدمين رجح شبه الصلة فقال بسقوطها بالموت، لأن الصلة لا تملك قبل القبض، ومن نظر إلى مذهب المتأخرين رجح شبه الأجرة فقال بعدم السقوط، وحيث كان مذهب المتأخرين هو المفتى به جزم في البغية بالثاني.
تحفة الفقهاء (2/ 357) دار الكتب العلمية، بيروت:
باب الإجارة الفاسدة: وما يكون به مخالفا المستأجر إذا كان مجهولا أو الأجر مجهولا أو العمل أو المدة فالإجارة فاسدة لأنها جهالة تفضي إلى المنازعة كما في البيع.
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
3/جمادی الاولیٰ 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |