83254 | جنازے کےمسائل | مردوں اور قبر کے حالات کا بیان |
سوال
ایبٹ آباد میں موجود دو گاؤں ہیں ۔ایک گڑھی اور دوسرا شیروان خورد ہے ۔ان دونوں کی ملحقہ سرحد پر ایک قدیم قبرستان موجود ہے جو پاکستان کے قیام سے پہلے کا ہے۔لیکن یہ قبرستان گورنمنٹ کے محکمہ مال میں ا ب تک رجسٹرڈ نہیں ہوا ہے۔تو قریب کے دونوں گاؤں کے لوگ اسی میں تدفین کرتے ہیں۔تو کیا اس میں نئی قبریں بنانا جائز ہو گا یا نہیں؟یہ سوال اس تناظر میں پوچھ رہے ہیں کہ کچھ مافیا ہیں جو سونے کی تلاش میں اس قبرستان کی بے حرمتی کر رہے ہیں تو ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم اس قبرستان کو رجسٹرڈ کروا سکیں تا کہ قبروں کی مزید بے حرمتی نہ ہو۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
قدیم قبرستان میں قبور اگر بوسیدہ ہو چکی ہوں اور نئے مردوں کی تدفین کے لیے الگ جگہ بھی میسر نہ ہو تو قبر ستان کی بوسیدہ قبروں کو کھود کر ان میں نئی میت کو دفن کرنا جائز ہے۔لہذا مذکورہ آبادی گڑھی اورشیروان خورد کو قبرستان میسر نہ ہونے پر قدیم قبرستان میں نئی قبور کھودنا جائز ہے۔
حوالہ جات
قال العلامة ابن الهمام رحمه الله تعالى: ولا يحفر قبر لدفن آخر إلا إن بلي الأول فلم يبق له إلا عظم إلا أن لا يوجد بد، فيضم عظام الأول ويجعل بينهما حاجز من تراب.(فتح القدير:2/ 141)
قال جمع من العلماء رحمہم الله تعالى:ولو بلى الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه، كذا في التبيين. ( الفتاوى الهندية:1/ 167)
قال العلامة عيني رحمه الله تعالى :وفي " جوامع الفقه ": لا بأس بنبشه وإخراجه، وعن المغيرة بن شعبة أنه سقط خاتمه في قبره عليه السلام، فما زال بالصحابة حتى رفع اللبن وأخذ خاتمه وقبله بين عينيه، وكان يفتخر بذلك ويقول: أنا آخر عهدا برسول الله عليه السلام ،ولو بلي الميت وصار ترابا يجوز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء فيه وسائر الانتفاعات به.(البناية:3/ 253)
قال العلامة الشرنبلالي رحمه الله تعالى:ولو بلي الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره ولا يجوز كسر عظامه ولا تحويلها ولو كان ذميا ولا ينبش وإن طال الزمان وأما أهل الحرب فلا بأس بنبشهم إن احتيج إليه. (مراقي الفلاح :/1227)
ہارون عبداللہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
08شعبان1445 ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | ہارون عبداللہ بن عزیز الحق | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |