85348 | طلاق کے احکام | طلاق کے متفرق مسائل |
سوال
سوال: میری بیوی باہمی ناچاکی کی بنا پر اپنے والدین کے گھر چلی گئی، اسکے موبائل فون میں میرے نام کی سم تھی جو میں نے نکلوا کر اپنے موبائل فون میں ڈال لی اور استعمال کرنے لگا، میری بیوی کی سہیلیوں نے جب میری بیوی کے ساتھ رابطہ کیا تو وہ سم نمبر میرے پاس تھا، تو میں نے اپنی بیوی کی سہیلیوں سے کہا کہ میں نے اسے طلاق دے دی ہے لہٰذا آپ کسی اور ذرائع سے رابطہ کریں، اس واقعہ کے 6 ہفتے بعد میری بیوی گھر واپس آ گئی اور ہم بطورِ میاں بیوی رہنے لگے، تقریباً 3 ہفتے میرے پاس قیام کے بعد وہ واپس اپنے والدین کے ہاں چلی گئی، پھر میں نے فون کال پر اسے ایک بار طلاق دی، یہ واقعہ نومبر 2020 کا ہے، عدت گزر جانے کے بعدمیں نے اپریل یا مئی 2021 میں اپنے سسرال رابطہ کیا کہ جہیز کا سامان اٹھا لیں تو انہوں نے کہا کہ آپ ہماری بیٹی کو تحریری طور پر طلاق نامہ دیں چنانچہ 9جون 2021 میںلڑکی کے والدین کے مطالبہ پر اور قانونی تقاضے پورے کرنے کےلیے میں نے تحریری طلاق نامہ دیا۔
کیا اس صورت میں اس عورت کیساتھ میں دوبارہ اپنا گھر آباد کر سکتا ہوں یا نہیں؟ اگر کر سکتا ہوں تو اس کا شرعی طریقہ کار کیا ہے؟
تنقیح:سائل کاکہناہےکہ رجوع بالکل نہیں ہوا تھا، بیوی سےقولی یا فعلی کسی قسم کاکوئی تعلق قائم نہیں ہوا تھا۔۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
تنقیح کےمطابق چونکہ دوطلاق کےبعد رجوع نہیں ہواتھا(نہ قولی نہ فعلی )اورعدت بھی گزرگئی تھی،لہذاعدت گزرنےکےبعد تحریری طلاق نامہ سےمزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ،کیونکہ جس وقت طلاق نامہ بنوایاگیا،اس وقت بیوی ہی نہیں تھی،طلاق رجعی کی عدت گزرجائےتوبائنہ ہوجاتی ہے،جس کےبعد ساتھ رہنےکےلیےدوبارہ نکاح ضروری ہوتاہے،صورت مسئولہ میں چونکہ نہ رجوع ہواہے،نہ دوبارہ نکاح ،اس لیےطلاق نامہ بنوانےکااعتبارنہیں ہوگا،اورطلاق نہیں ہوئی ،موجودہ صورت میں دوبارہ نکاح بھی ہوسکتاہے۔اگربیوی راضی ہےاور آپ سمجھتےہیں کہ دوبارہ آپس میں نباہ ہوسکےگاتو دوبارہ نکاح کیاجاسکتاہے،لیکن اس کےبعد صرف ایک طلاق کااختیار ہوگا،ایک طلاق بھی ہوگئی تو بیوی پر طلاق مغلظہ واقع ہوجائیں گی ،اس کےبعد بغیر حلالہ کےدوبارہ نکاح بھی نہ ہوسکےگا۔
حوالہ جات
"الهداية"1 / 254:
وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض لقوله تعالى : { فأمسكوهن بمعروف } [ البقرة : 231 ] من غير فصل ولا بد من قيام العدة لأن الرجعة استدامة الملك ألا ترى أنه سمي إمساكا وهو الإبقاء وإنما يتحقق الاستدامة في العدة لأنه لا ملك بعد انقضائها والرجعة أن يقول راجعتك أو راجعت امرأتي وهذا صريح في الرجعة ولا خلاف فيه بين الأئمة
"الفتاوى الهندية"10 / 180:
وتنقطع الرجعة إن حكم بخروجها من الحيضة الثالثة إن كانت حرة۔
"رد المحتار "11 / 461:
باب الرجعة هي استدامة الملك القائم ) بلا عوض ما دامت ( في العدة )۔
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی
06/جمادی الاولی1446ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |