زکوٰۃ کون لے سکتا ہے؟
سوال:کتنی مالیت رکھنے والا شخص زکوٰۃ لے سکتا ہے اور کتنی مالیت والے پر زکوٰۃ نہیں لگ سکتی؟ (اظہر۔ ملتان)
جواب: سونے، چاندی، مال تجارت اور گھر میں روز مرہ استعمال کی چیزوں سے زائد سامان کی قیمت لگا کر اس میں نقدی جمع کی جائے، ان پانچوں کے مجموعہ یا ان میں سے بعض کے مجموعہ کی مالیت ۳۵ء ۶۱۲ گرام چاندی کی قیمت سے کم ہو تو ایسا شخص زکوٰۃ کا مستحق ہے وہ زکوٰۃ لے سکتا ہے اور اگر ان پانچوں یا ان میں سے بعض کا مجموعہ چاندی کے وزن مذکور کی قیمت کے برابر یا اس سے زائد ہے تو ایسا شخص زکوٰۃ نہیں لے سکتا۔
ضرورت سے زائد لباس، ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر، یا ٹی وی اور وی سی آر جیسی خرافات انسانی حاجات میں داخل نہیں، اس لیے ان کی قیمت بھی حساب میں لگائی جائے گی۔
’’ والحاصل أن النصاب قسمان: موجب للزکاۃ وھو النامي الخالي عن الدین، وغیر موجب لھا وھو غیرہ، فإن کان مستغرقا بالحاجۃ لما لکہ أباح أخذھا (الزکاۃ)، وإلا حرمہ (أخذالزکاۃ)، وأوجب غیرھا من صدقۃ الفطر والأضحیۃ۔‘‘ (شامیۃ: ۲/۳۳۹)
وفي أضحیۃ الشامیۃ:وصاحب الثیاب الأربعۃ لوساوی الرابع نصابا غنی، وثلاثۃ فلا؛ لأن أحدھما للبذلۃ، والآخر للمھنۃ، والثالث للجمع والوفد والأعیاد۔‘‘ (رد المحتار: ۵/۲۱۹)
ایک غلط رواج کی اصلاح:
بہت سے مالدار لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے علاقوں میں سینکڑوں غریب ہوتے ہیں مگر یہ لوگ زکوٰۃ صرف اپنی برادری کی انجمن میں دیتے ہیں اور پھر وہ انجمن زکوٰۃ کی رقم قبرستان کی زمین خریدنے یا ہسپتال وغیرہ کی تعمیر پرخرچ کرتی ہے۔خوب سمجھنا چاہیے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے مستحق زکوٰۃ فقیر کو مالک بنا کر دینا ضروری ہے، جس صورت میں تملیک نہ ہو مثلاً کوئی عمارت تعمیر کردی یا قبرستان خرید کر وقف کردیا، اس سے زکوٰۃ اداء نہیں ہوتی۔
پبلسٹی پر زکوٰۃ کی رقم لگانا:
آج کل بہت سے ادارے زکوٰۃ اور دوسرے عطیات جمع کرنے کے لیے زکوٰۃ کی بہت سی رقم پبلسٹی پر خرچ کر دیتے ہیں، حالانکہ پبلسٹی پر رقم لگانے سے زکوٰۃ اداء نہیں ہوتی، اس لیے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے تملیک ِفقیر شرط ہے جو اسمیں نہیں پائی جاتی۔
عشر و زکوٰۃ کو کن چیزوں میں صرف کرنا صحیح نہیں:
ہر اس چیز میں جس میں کسی مستحق زکوٰۃ کی تملیک (مالک بنانے)کی شرط نہ پائی جائے، خواہ وہ سرے سے مالک بننے کا اہل نہ ہو جیسے مسجد و مدرسہ کی تعمیر یا اہل ہو لیکن مستحق نہ ہو جیسے صاحب ِ نصاب شخص کو دے دی تو اس طرح غیر مصرف میں رقم خرچ کرنے یا کوئی چیز دینے سے زکوٰۃ و عشر اداء نہیں ہوتے۔
لہٰذا مسجد و مدرسہ ہسپتال،اسکول کی تعمیر میں،سڑک وغیرہ بنانے میں، میت کے کفن میں، میت کی طرف سے قرض اداء کرنے میں اگر چہ حالت ِ حیات میں اس نے قرض کی ادائیگی کا حکم دیا ہو، زکوٰۃ و عشر دینا صحیح نہیں، اس سے زکوٰۃ و عشر اداء نہیں ہوتے، کیونکہ اس میں مالک بنانا نہیں پایا جاتا۔
في الدر: ’’ لا یصرف إلی بناء مسجد ولا إلی کفن میت وقضاء دینہ … ولو أذن فمات، فإطلاق الکتاب یفید عدم الجواز وھو الوجہ نھر۔‘‘
وفي الحاشیہ: ’’ لأنہ لا بد من کونہ تملیکا، وھو لا یقع عند أمرہ بل عند أداء المأمور وقبض النائب، وحینئذ لم یکن المدیون أھلا للتملک لموتہ۔‘‘ (۲/۳۴۵)
مد ِزکوٰۃ سے خیراتی دواخانہ کھولنے کاحکم:
سوال: ہم اپنے محلہ میں ایک دواخانہ کھولنا چاہتے ہیں، جس کا خرچ زکوٰۃ اور چرم قربانی کے پیسوں سے چلانا ہے، اس میں مریضوں سے بھی کچھ پیسے وصول کیے جائیں گے اور وہ پیسے بھی دواخانہ ہی میں خرچ ہوں گے۔ پوچھنا یہ ہے کہ شریعت کی رو سے ا س طرح زکوٰۃ اداء ہوجاتی ہے یا نہیں؟ اور اس سے ہرشخص فائدہ اٹھا سکتا ہے یا نہیں؟(سعیداللہ۔ کراچی)
جواب: دواخانہ میں زکوٰۃ اور چرم قربانی کا مصرف صرف یہ ہے کہ اس رقم سے دوائیں خرید کرمساکین کومفت دے دی جائیں، اس مدسے دواخانہ کے ڈاکٹروں اور دوسرے کارکنوں کی تنخواہ، مکان کا کرایہ، تعمیر اور فرنیچر وغیرہ مصارف پر خرچ کرنا جائز نہیں، اس سے زکوٰۃ اداء نہیں ہوگی۔ مساکین سے مد زکوٰۃ سے خریدی ہو ئی دواؤں کے پیسے لینا اور وہ دوائیں غیرمساکین کو دینا جائز نہیں، بعض دواخانوں میں مد زکوٰۃ سے مریضوں کو خون دیا جاتا ہے، اس سے زکوٰۃ اداء نہیں ہوگی۔
’’فلا یکفي فیھا الإطعام إلا بطریق التملیک، ولو أطعمہ عندہ ناویا الزکاۃ لا یکفی۔‘‘ (شامیۃ:۲/۳۴۴)
وفي الدر: ’’ھی(الزکوۃ)تملیک جزء مال عینہ الشارع من مسلم فقیر۔‘‘(۲/۲۵۷)واما الدم فلانہ لیس بمال۔
جن رشتہ داروں کو زکوٰ ۃ دینا جائز نہیں:
سوال:زید نے اپنی لڑکی فاطمہ کو جائیداد میں سے کوئی حصہ نہیں دیا، فاطمہ کی شادی کے بعد اولاد بھی ہوگئی، اب زید فاطمہ یا اس کی اولاد کو زکوٰۃ دے سکتا ہے؟ اگر زید کا انتقال ہوجائے تو فاطمہ کے بھائی اس کو یا اس کی اولاد کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں یا نہیں؟ (عبدالرحمن۔ مانسہرہ)
جواب:باپ اپنی بیٹی اور اس کی اولاد کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا، بھائی اپنی بہن اور اس کی اولاد کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔ زکوٰۃ کا وراثت سے کوئی تعلق نہیں، زید کے انتقال کے بعد لڑکی کو اس کا حق وراثت دینا لازم ہے۔ زندگی میں والد اولاد کو جائیداد وغیرہ دینا چاہے تو عام حالات میں لڑکوں اور لڑکیوں کو برابر دینا چاہئے، لڑکیوں کو محروم کرنے کی نیت سے سب جائیداد لڑکوں کو دے دیناہرگز جائز نہیں، تاہم والد نے زندگی میں فاطمہ کو کچھ دیا ہو یا نہ دیا ہو زکوٰۃ کا وہی حکم ہے جو اوپر بیان ہوا، مندرجہ ذیل رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں:
(۱) اصول: یعنی جن سے پیدا ہوا ہے۔ ماں،باپ، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ۔سوتیلی ماں اصول میں داخل نہیں، لہٰذا اسے زکوٰۃ دینا جائز ہے۔
(۲) فروع: یعنی اولاد۔بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی وغیرہ۔
(۳) میاں بیوی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے، طلاق کے بعد بھی جب تک عدت نہیں گذرجاتی زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔
’’ولا (یصرف) إلی من بینھما ولا دولو مملوکا لفقیر،أوبینھما زوجیۃ۔ (درمختار: ۲/۳۴۶)
زکوٰۃ دینے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ مصرف نہ تھا:
سوال: زید ہاشمی ہے، اس کو کسی نے زکوٰۃ دے دی تواب زید کے لیے کیا حکم ہے؟ جس نے زکوٰۃ دی ہے اس کو واپس کرے یا زکوٰۃ اداء ہوگئی؟ اگر کسی دوسرے غیر مصرف میں زکوٰۃ اداء کردی مثلاًمالدارکو دیدی تو کیا حکم ہے؟ (حمیداللہ۔ سوات)
جواب:اگر دینے والے نے غور و فکر کے بعد مصرف سمجھ کر زکوٰۃ دی تھی تو اس کی زکوٰۃ اداء ہوگئی، مگر زید کو اس کے زکوٰۃ ہونے کا علم ہوگیاتو اس پر لازم ہے کہ معطی(دینے والے) کو واپس کرے اور معطی دوبارہ زکوٰۃ اداء کرے، اگر واپس کرنا کسی وجہ سے ممکن نہ ہو تو مساکین پر صدقہ کردے اور اگر غور و فکر کے بغیر زکوٰۃ اداء کی یا غور و فکر کیا اور غیر مصرف ہونے کا گمان ہو ا یا شک رہا، اس کے باوجود زکوٰۃ اداء کردی تو اس صورت میں اگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مصرف تھا تو زکوٰۃ اداء ہوگئی اور اگر بعد میںمعلوم ہواکہ مصرف نہ تھا تو زکوٰۃ اداء نہیں ہوئی۔
’’ دفع بتحر لمن یظنہ مصرفا، فبان غناہ أوکونہ ذمیا … لا یعید، لأنہ أتی بما في وسعہ حتی لو دفع بلا تحرلم یجز إن أخطأ۔‘‘
وفي الحاشیۃ: ’’ ولا یسترد في الولد والغني، وھل یطیب لہ؟ فیہ خلاف، وإذا لم یطب، قیل یتصدق، وقیل یرد علی المعطی۔‘‘ (ردالمحتار: ۲/۳۵۳)
زکوٰۃ کی رقم الگ کرکے فوت ہوگیا:
سوال:زکوٰۃ کی نیت سے رقم الگ کرلی یا وکیل کو دے دی، اس حالت میں ادائیگی سے قبل انتقال ہوگیا تو اس کا کیا حکم ہے؟ (آفتاب احمد۔ باغ، آزاد کشمیر)
جواب: اگر میت نے ا س کی وصیت کی ہو تو یہ رقم زکوٰۃ میں دیجائے گی بشرطیکہ کل ترکہ کی ایک تہائی سے زائد نہ ہو، اگر تہائی سے زائد ہو تو صرف تہائی ترکہ کے برابر زکوٰۃ میں اداء کی جائے گی زائد نہیں اور اگر وصیت نہیں کی تو ترکہ میں شمار کرکے ورثہ میں تقسیم ہوگی۔ البتہ وصیت کی صورت میں تمام ورثہ عاقل بالغ ہوں اور دلی خوشی سے تہائی سے زائد دیدیں اور وصیت نہ ہونے کی صورت میں بھی میت کی طرف سے زکوٰۃ اداء کردیں تو جائز ہے۔
’’ ولا تؤخذ من ترکتہ بغیر وصیۃ، وإن أوصٰی بھا اعتبر من الثلث إلا أن یجیز الورثۃ۔‘‘ (درمختار: ۲/۲۹۴)
غیر مسلم کو زکوۃ دینا جائز نہیں:
غیر مسلم ذمی ہو یا حربی، کو زکوٰۃ، عشراور صدقاتِ واجبہ دینا جائز نہیں، البتہ نفلی صدقات، عطیات دینا جائز ہے۔
وفي الشامیۃ: ’’قال الرملي: وفي الحاوي: وإن أطعم فقراء أھل الذمۃ جاز: وقال أبو یوسف رحمہ ﷲ تعالیٰ لایجوزو، بہ نأخذ، قلت: بل صرح في کافي الحاکم بأنہ لا یجوز،ولم یذکرفیہ خلافا، وبہ علم أنہ ظاھر الروایۃ عن الکل۔‘‘(۲/۶۳۳)
وفي الدر: وأما الحربي ولو مستأمنا فجمیع الصدقات لا تجوز لہ اتفاقا، لکن جزم الزیلعي بجواز التطوع لہ۔‘‘
وفي الحاشیۃ: ’’أي للمستأمن کما تفیدہ عبارۃ النھر … لکن رأیت في المحیط من کتاب الکسب: ذکر محمد في السیر الکبیر: لا بأس للمسلم أن یعطي کافرا حربیا أوذمیا وأن یقبل الھدیۃ منہ، لماروي أن النبي صلی ﷲ علیہ وسلم بعث خمس مائۃ دینار إلٰی أھل مکۃ حین قحطوا وأمربدفعھا إلی أبی سفیان بن حرب وصفوان ابن أمیۃ؛ لیفرقا علی أھل مکۃ؛ ولأن صلۃ الرحم محمودۃ في کل دین، والإ ھداء إلی الغیرمن مکارم الأخلاق۔‘‘ (ردالمحتار: ۲/۳۵۳)
بنو ہاشم کو زکوٰۃ دینے کا حکم:
بنو ہاشم یعنی ہاشم کی اولاد میں سے حضرت ِ عباس،حضرت ِ عقیل، حضرت ِحارث، حضرت ِعلی،حضرت ِ جعفر رضی اللہ عنہم کی اولاد کو راجح قول کے مطابق زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی، ان کے علاوہ باقیوں کی اولادکو دینا جائز ہے بشرطیکہ مسلمان ہو اور مستحقِ زکوٰۃ ہو۔
في الشامیۃ: فإنہ (عبد المطلب) أعقب اثنی عشر، تصرف الزکاۃ إلی أولاد کل إذا کانوا مسلمین فقراء، إلا أولاد عباس و حارث وأولاد أبی طالب من علی وجعفر وعقیل۔قھستانی۔‘‘ (۲/۳۵۰)
جس کی صرف ماں سید ہو اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے:
اگر کسی شخص کی صرف ماں سید ہو، باپ سید نہ ہو تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے،کیونکہ نسب والد کی طرف سے ہوتا ہے، والدہ کی طرف سے نہیں۔
في الشامیۃ: ’’ من کانت أمھا علویۃ مثلا، وأبوھا عجمي یکون العجمی کفوالہ وإن کان لھا شرف ما؛ لأن النسب للآ باء ولھذا جاز دفع الزکاۃ إلیھا۔‘‘(۳/۸۷)
جو ہاشمی شجرہ نہ رکھتا ہو اس کا زکوٰۃ لینا:
سوال: ہمارا تعلق عباسی خاندان سے ہے، مگر کوئی شجرئہ نسب نہیں، جس سے یقینی طور پر معلوم ہوسکے کہ ہم واقعی عباسی ہیں۔ خاندان میں بعض افراد ایسے غریب یا بیمار ہوتے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، کیا ان کو زکوٰۃ دینے اور ان کے لیے لینے کی گنجائش ہے؟ اگر کسی نے دے دی تو اداء ہوجائے گی؟ (نعیم احمد عباسی۔ رحیم یار خان)
جواب: ثبوت ِنسب کے لیے عام شہرت کافی ہے، شجرہ ہونا ضروری نہیں، اس لیے عباسی کو زکوٰۃ دینا اور اس کے لیے لینا جائز نہیں، اس کو زکوٰۃ دینے سے اداء نہیں ہوگی۔
اگر کوئی عباسی حاجت مند ہو تو غیر زکوٰۃ سے اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے اور اس کو سعادت سمجھنا چاہئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کی اتنی قدر بھی دل میں نہیں کہ مسلمان کہلانے والے اہل ثروت غیر زکوٰۃ سے ان کی مدد کریں تاکہ انہیں لوگوں کا میل کچیل لینے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔
البتہ بعض معتبر مفتیان کرام نے بعض ان فقہاء کے قول پر فتویٰ دیا ہے جو ہاشمی کو زکوٰۃ دینے کے جواز کے قائل ہیں۔ شدید مجبوری میں اس فتویٰ پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔
’’ ولا یشھد أحد بما لم یعاینہ إلا في النسب والموت … ‘‘ (شامیۃ: ۵/۴۷۰)
ایسی بیوی کو زکوٰۃ دینا جس کاشوہر کے ذمہ بقدرِ نصاب مہر ہو:
کسی شخص کی بیوی کے پاس، سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت اور ضرورت سے زائد سامان بقدرِ نصاب نہ ہو لیکن اس بیوی کا شوہر کے ذمہ بقدرِ نصاب مہر لازم ہو، مگر اگر شوہر دینے کے لیے تیار نہ ہو توخواہ مہر مؤجل ہو یا معجل دونوں صورتوں میں اس بیوی کو زکوٰۃ و عشر دینا صحیح ہے، البتہ اگر اس مہر میں سے بقدرِ نصاب معجل ہو اور شوہر دینے کے لیے تیار بھی ہو تو پھربیوی کو زکوٰۃ وعشر دینا جائز نہیں۔
في الشامیۃ: ’’ في الفتح: دفع إلی فقیرۃ، لھا مھر دین علی زوجھا یبلغ نصابا، وھو موسر بحیث لوطلبت أعطاہا، لا یجوز وإن کان لا یعطی لو طلبت، جاز۔‘‘
وقال… ومال الرحمتی إلی ھذا، وقال بل في زماننا یقرالمدیون بالدین وبملاء تہ، ولا یقدر الدائن علی تخلیصہ منہ، فھو بمنزلۃ العدم۔‘‘ وفي الدر: ’’ومنہ مالو کان مؤجلا۔‘‘ (رد المحتار: ۲/۳۴۴)
بیوہ اور یتیم کو زکوٰۃ دینے کا حکم:
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر خاتون بیوہ ہے تو اس کو زکوٰۃ ضرور دینی چاہیے، حالانکہ یہاں بھی شرط یہ ہے کہ وہ مستحقِ زکوٰۃ ہو اور صاحبِ نصاب نہ ہو، اگر بیوہ مستحق زکوٰۃ ہے تو اس کی زکوٰۃ کے ذریعہ مدد کرنا اچھی بات ہے لیکن اگر مستحق زکوٰۃ نہیں تو محض بیوہ ہونے کی وجہ سے وہ مصرف زکوٰۃ نہیں بن سکتی۔
اسی طرح یتیم کو زکوٰۃ دینا اچھی بات ہے لیکن اس میں بھی دیکھنا چاہیے کہ یہ یتیم مستحقِ زکوٰۃ ہے یا نہیں، اگر یتیم صاحب ِ نصاب ہے تو یتیم ہونے کے باوجود اس کو زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی۔
مطلقہ بیوی کو زکوٰۃ دینا:
بیوی کو جب طلاق دی جائے،رجعی ہو یا بائن،تین طلاق دی ہوں یا تین سے کم تو جب تک عدت نہ گزر جائے شوہر کا اسے زکوٰۃ و عشر اور دوسرے صدقاتِ واجبہ دینا صحیح نہیں، عدت گزرنے کے بعد اسے زکوٰۃ عشر وغیرہ دیا جا سکتا ہے۔
في الدر: ’’أو بینھما زوجیۃ ولو مبانۃ۔‘‘
وفي الحاشیۃ: ’’أی في العدۃ ولو بثلاث، نھر عن معراج الدرایۃ۔‘‘ (رد المحتار:۲/۳۴۶)
صاحب ِ نصاب طالب علم کو عشر و زکوٰۃ دیناکب جائز ہے؟
علوم ِ دینیہ کی تحصیل میں مصروف طالب علم کو زکوٰۃ وعشر دینا جب صحیح ہے جبکہ وہ مستحق ہو، اگر صاحب ِ نصاب ہو تو دینا جائز نہیں، ہاں اگر دورانِ طلب ِعلم اس کے پاس خرچ نہ ہواور گھر سے منگوانے کی بھی کوئی صورت نہ ہو تو اسے زکوٰۃ دینا صحیح ہے،اگر چہ اپنے علاقے میں یہ بقدرِ نصاب اموال کا مالک ہو۔
في الشامیۃ: ’’ والأوجہ تقییدہ (طالب العلم) بالفقیر ویکون طلب العلم مرخص الجواز سئوالہ عن الزکاۃ وإن کان قادرا علی الکسب۔‘‘
وفي الدر: ’’ والغنی لا یمنع من تناولھا عند الحاجۃ،کابن السبیل، بحر عن البدائع۔‘‘ (رد المحتار:۲/۳۴۰)
وفي الشامیۃ: ’’ وابن السبیل إذا کان لہ في وطنہ مال بمنزلۃ الفقیر، بحر۔‘‘ (۲/۳۴۳)
ابن السبیل کی تعریف در مختار میں یہ کی ہے:
’’وھو کل (من لہ مال لا معہ) ومنہ مالو کان مالہ مؤجلا أو علی غائب۔‘‘ (در مختار: ۲/۳۴۳)
وفي الشامیہ: لکن الزیلعی جعل الثاني (من في وطنہ ولا یقدر علی أخذ الدیون) ملحقا بہ (بابن السبیل) حیث قال: والحق بہ کل من ھو غائب عن مالہ وإن کان في بلدۃ، لأن الحاجۃ ھی المعتبرۃ، وقد وجدت، لأنہ فقیر یداً وإن کان غنیا ظاھراً۔ (۲/۳۴۳)
مقروض کو زکوٰۃ وعشر دینا:
جو آدمی اتنا مقروض ہو کہ اگر اس کا قرض منہا کیا جائے تو اس کے پاس بقدرِ نصاب مال نہ بچے اور نہ اس کے پاس ضرورت سے زائد چیزیں اتنی ہو ں کہ وہ نقدی اور دوسرے اموالِ زکوٰۃکے ساتھ ملا کر بقدرِ نصاب بن جائیں تو یہ مستحق زکوٰۃ ہے، لہٰذا اسے زکوٰۃ و عشر دینا صحیح ہے۔
قرض خواہ کو زکوٰۃ و عشر دینا:
اگر کسی کا دوسرے پر بقدرِ نصاب قرض ہو تو اسے زکوٰۃ و عشر دینا صحیح نہیں، لیکن یہ جب ہے کہ جب یہ قرض (دین) معجل ہو اور مقروض دینے کے لیے تیار بھی ہو یا مؤجل ہو لیکن مقروض قبل الوقت دینے کے لیے تیار ہو۔
اگر اس کا دوسرے کے اوپر بقدر نصاب قرض ہو لیکن مقروض منکر ہو یا قرض دیتا نہیں یا قرض مؤجل ہو اور مقروض قبل الوقت دینے کے لیے تیار نہیں، تو اس صورت میں اس شخص کو زکوٰۃ و عشر دینا صحیح ہے اور اس کے لیے لینا بشرطیکہ بقدرِ ضرورت ہو جائز ہے۔
في الدر: ’’ ومنہ ما لو کان مالہ مؤجلا إذا حتاج إلی النفقہ یجوز لہ أخذ الزکاۃ قدر کفایتہ إلی حلول الأجل، نھر عن الخانیۃ۔ أو (لہ دین) علی غائب أو معسر أو جاحد ولو لہ بنیۃ في الأصح۔‘‘ (۲/۳۴۴)
وفي الشامیۃ: … ومال الرحمتي إلی ھذا، وقال بل في زماننا یقر المدیون بالدین وبملاء تہ، ولا یقدر الدائن علی تخلیصہ منہ، فھو بمنزلۃ العدم۔‘‘ (۲/۳۴۴)
وقال: ’’ وفي الفتح أیضاً: ولا یحل لہ أی لابن السبیل أن یأخذ أکثر من حاجتہ۔‘‘ (۲/۳۴۳)
فقیر کو مدِزکوٰۃ میں ملی چیز کا غنی کے لئے استعمال:
فقیر کوزکوٰۃ،عشر یا دوسرے صدقاتِ واجبہ کی مد میںکوئی چیز مل جائے تو اگر وہ یہ چیز کسی غنی صاحب ِنصاب کو مالک بنا کر دے مثلاً زکوٰۃ میں ملی ہوئی چیز اسے دے کر اس سے کوئی چیز عوض کے طور پر لے لے یا ویسے بطورِ ہدیہ اسے دے دے تو غنی کے لیے اس چیز کا استعمال جائز ہے، لیکن اگر اس کو مالک نہ بنائے، اباحۃً یا عاریۃً دے دے تو غنی کے لیے اس کا استعمال جائز نہیں، لہٰذا غنی فقیر کے ہاں مہمان ہو اور فقیر مد زکوٰۃ میں ملی ہوئی رقم سے اسے اپنے ساتھ کھاناکھلائے تو یہ جائز نہیں۔
قال في الدر: ’’ بخلاف فقیر أباح لغنی أوھاشمی عین زکوٰۃ أخذھا، لا یحل، لأن الملک لم یتبدل۔‘‘
وفي الحاشیۃ: ’’ لأن المباح لہ یتناولہ علی ملک المبیح۔‘‘ (۵/۸۰)
منی آرڈر کے ذریعے زکوٰۃ بھیجنے میں فیس زکوٰۃ کی رقم سے اداء کرنا:
منی آرڈر کے ذریعے زکوٰۃ بھیجنا درست ہے اور زکوٰۃ جب اداء ہو گی جب مستحق زکوٰۃ اس پر قبضہ کر لے، منی آرڈر کی فیس زکوٰۃ کی رقم سے دینا درست نہیں،یہ فیس اپنے پاس سے علیحدہ دینی چاہیے۔
البتہ اگر کسی جگہ مسکین موجود نہ ہونے کی وجہ سے دوسری جگہ بھیجنا پڑے تو فیس زکوٰۃ سے دے سکتے ہیں۔
في شرح التنویر: ’’ ولا یخرج عن العھدۃ بالعزل بل بالأداء للفقراء۔‘‘ (۲/۲۷۰)
غنی کے رشتہ داروں کو زکوٰۃ و عشر دینا:
اگر کوئی شخص صاحب ِ نصاب ہے تو اس کی نابالغ اولاد کو زکوٰۃ و عشر نہیں دیا جا سکتا،البتہ اس کی مستحق بیوی، والد، بالغ اولاد کو دیا جا سکتا ہے، نیز کسی بچے کا باپ اگر مستحقِ زکوٰۃ ہے اور ماں صاحب ِ نصاب ہے توایسے بچے کو بھی زکوٰۃ و عشر دیا جا سکتا ہے۔
’’إن الطفل یعد غنیا بغنی أبیہ بخلاف الکبیر فإنہ لا یعد غنیا بغنی أبیہ، ولا الأب بغنی ابنہ، ولا الزوجۃ بغنی زوجھا، ولا الطفل بغنی أمہ۔ حلبي عن البحر۔‘‘ (شامیۃ: ۲/۳۵۰)
رہن کی پیداوار یا دُکان کے کرائے سے گزارہ نہ ہوتاہو تو اس سے زکوٰۃ دینا:
اگر کسی کے پاس زمین ہے یا دُکانیں ہیں اور وہ کرایہ پر دی ہوئی ہیں، لیکن زمین کی پیداوار یا دکانوں کے کرائے سے اس کے اور اس کے بال بچوں کا گزارہ نہیں ہوتا، اگر چہ فی نفسہٖ پیداوار یا کرایہ کی سالانہ مقدار نصاب سے بھی زیادہ ہو مگر عیال دار ہونے کی وجہ سے اخراجات زیادہ ہوں اور سال کے آخر میں بقدر نصاب نہ بچتا ہو تو ایسے شخص کو زکوٰۃ اور عشر دیا جا سکتا ہے۔
في الشامیۃ: سئل عن محمد عن من لہ أرض، یزرعھا، أوحانوت، یستغلھا، أودار، غلتھا ثلاثۃ آلاف، ولا تکفي لنفقتہ ونفقۃ عیالہ سنۃ؟ یحل لہ أخذ الزکٰوۃ وإن کانت قیمتھا تبلغ ألوفا، وعلیہ الفتویٰ، وعندھما لا یحل وذکر في الفتاویٰ فیمن لہ حوانیت ودور الغلۃ، لکن غلتھا لا تکفیہ وعیالہ أنہ فقیر، ویحل لہ أخذ الصدقۃ عند محمد، وعند أبی یوسف لا یحل، وکذا لو لہ کرم، لا تکفیہ غلتہ۔‘‘ (۲/۳۴۸)
وفي الھندیۃ: ’’ ولا یجوز دفع الزکٰوۃ إلی من ملک نصابا أی مال کان، دراھم أو دنانیر أو سوائم أو عروضا للتجارۃ أولغیر التجارۃ، فاضلا عن حاجتہ الأصلیۃ في جمیع السنۃ، ھکذا في الزاھدي۔‘‘ (۱/۱۸۹)
مد ِزکوٰۃ سے دینی کتابیں طبع کرنا:
مد ِزکوٰۃ سے مفید دینی کتابیں صرف طبع کرنے سے زکوٰۃ اداء نہیں ہوتی، البتہ طبع و اشاعت کے بعد فقراء و مستحقین کو بلا عوض دینے سے زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے، بلکہ یہ کتب ِ دینیہ کی اشاعت کا بہتر ین ذریعہ ہے۔
في الدر: ’’ فلوأطعم یتیماناویا الزکاۃ لا یجزیہ إلا إذا دفع إلیہ المطعوم کما یجزئہ لو کساہ۔‘‘ (۲/۲۵۷)
عشر اور زکوٰۃ کہا ں دینا افضل ہے؟
جس جگہ غلہ یا مالِ زکوٰۃ موجود ہو اس جگہ کے فقراء و مستحقین کو زکوٰۃ و عشر دینا افضل ہے، دوسری جگہ منتقل کرنا مکروہِ تنزیہی ہے، إلا یہ کہ دوسری جگہ زیادہ مستحق افراد یا مستحقین رشتہ دار ہوں تو ان کی طرف منتقل کرنا جائز بلکہ افضل ہے کہ اس میںفریضہ کی ادائیگی کے ساتھ صلہ رحمی بھی ہے،نیز اگر قبل از وقت عشر یا زکوٰۃ دے تو اس میں بلا وجہ دوسری جگہ منتقل کرنے میں بھی حرج نہیں۔
في الدر: ’’وکرہ نقلھا إلا إلیٰ قرابۃ أوأحوج۔‘‘
وفي الحاشیۃ: ’’والمتبادر منہ أن الکراھۃ تنزیھیۃ تأمل، ویعتبر في الزکاۃ مکان المال في الروایات کلھا۔‘‘ (ردالمحتار: ۲/۳۵۳)
وفیہ: ’’ أوکانت معجلۃ قبل تمام الحول فلا یکرہ، خلاصۃ۔‘‘ (۲/۳۵۴)
ایک مستحق کو کتنی رقم دی جائے؟
مستحب یہ ہے کہ مستحق زکوٰۃ کی حاجت و عیال کو دیکھ کر اس کے مطابق زکوٰۃ دی جائے، کم از کم اتنی رقم دی جائے جس سے وہ ایک دن اپنی اور اہل و عیال کی ضروریات پوری کر سکے،نیز ایک مستحق زکوٰۃ کو بقدرِ نصاب یا اس سے زیادہ دینا مکروہ ہے، إلا یہ کہ وہ مقروض ہو اور قرض منہا کرنے کے بعد زکوٰۃ کی رقم سے وہ صاحب ِ نصاب نہ بنتا ہو یا وہ عیال دار ہو اور اس کے عیال پر اس رقم کو تقسیم کیا جائے تو ہر ایک کو نصاب سے کم پہنچے تو پھر اس کو مقدارِ نصاب سے زیادہ دینا بھی جائز ہے۔
یہ حکم صرف نقدی کے نصاب کا نہیں بلکہ اموالِ تجارت،مواشی کی زکوٰۃاور عشر سب کا یہی حکم ہے۔
في الدر: وکرہ إعطاء فقیر نصابا أوأکثر إلا إذا کان المدفوع إلیہ مدیونا أوکان صاحب عیال بحیث لو فرقہ علیھم لا یخص کلا، أولا یفضل بعد دینہ نصاب فلا یکرہ، فتح۔‘‘
وفي الحاشیۃ: ولا فرق بین کونہ نا میا أولا، ولابین کونہ من النقود أومن الحیوانات۔‘‘ (ردالمحتار: ۲/۳۵۳)
وفیہ: یندب دفع ما یغنیہ یومہ عن السؤال،واعتبار حالہ من حاجۃ و عیال۔‘‘ (۲/۳۵۵)
زکوٰۃ و عشر سے کھانا کھلانا:
زکوٰۃ اور عشر کی ادائیگی کے لیے فقیر کو مالکانہ طور پردینا ضروری ہے، لہٰذا اگر فقراء کو اپنے گھر جمع کر کے عشر یا زکوٰۃ کی رقم سے کھانا کھلائے تو اس سے زکوٰۃ و عشر اداء نہیں ہو گا،البتہ اگر کھانا ان کی ملکیت میں دیدیا جائے اور ان کو یہ بتایا بھی جائے کہ یہ کھانا مالکانہ طور پر آپ کو دیا جارہا ہے، چاہے وہ خود کھالیں یا دوسرے کو دیدیں تو پھر عشر و زکوٰۃ اداء ہو جائیگی۔
في الشامیۃ: فلا یکفي فیھا الإطعام إلا بطریق التملیک، ولو أطعمہ عندہ نا ویا الزکاۃ لا تکفی۔‘‘ (۲/۳۴۴)
مقدارِواجب سے زیادہ زکوٰۃ اداء کردی:
اگر حساب لگاتے وقت غلطی ہو جائے اور مقدار واجب سے زیادہ زکوٰۃ ادا کردے، مثلاً ہزار کی بجائے بارہ سو زکوٰۃ دیدے تو اس اضافے کو آیندہ سال کی زکوٰۃ میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
في الشامیۃ: ’’ وفي الوالجبۃ: ’’ لو کان عندہ أربع مائۃ درھم فأدیٰ زکاۃ خمس مائۃ ظانا أنھا کذلک، کان لہ أن یحسب الز یادۃ للسنۃ الثانیۃ، لأنہ أمکن أن یجعل الزیادۃ تعجیلا۔‘‘ (۲/۲۹۳)
کتنی عمر کے بچوں کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے؟
بچے کو زکوٰۃ دینے کی صورت میں ضروری ہے کہ یا تو وہ بچہ خود سمجھدار ہو، کسی چیز کو اپنی ملکیت سمجھنے اور اسے بے جا ضائع نہ کرنے کا شعوررکھتا ہو، اگر اتنا سمجھدار نہیں تو اس کے والدکویا جو بھی اس کی پرورش کرتا ہو اسے دی جائے، نا سمجھ چھوٹے بچے کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ اداء نہیں ہو گی۔
في الدر: ’’ بشرط أن یعقل القبض۔‘‘
وفي الحاشیۃ: ’’ وفسرہ في الفتح وغیرہ بالذی لا یرمی بہ، ولا یخدع عنہ، فإن لم یکن عاقلا فقبض عنہ أبوہ أووصیہ أو من یعولہ قریبا أوأجنبیا أوملتقطہ، صح۔ کما في البحر والنھر۔‘‘ (ردالمحتار: ۲/۲۵۷)
مجنون یا معتوہ شخص کو زکوٰۃ دینا:
پاگل شخص کو زکوٰۃ دینے سے اداء نہیں ہوتی۔ ایسا شخص جو ناقص العقل ہو، اس کی حرکات و سکنات، اٹھنا بیٹھنا، بات کرنے کا انداز اور بات سمجھنے کی صلاحیت ایک عقل مند انسان کی طرح نہ ہو تو اسے زکوٰۃ دینے سے جب ذمہ فارغ ہو گا جب وہ اتنا سمجھدار ہوکہ کسی چیز پرقبضہ کرنے کا شعور رکھتا ہو، نفع ونقصان کو سمجھتا ہو، ایسا نہ ہو کہ چیز لے کر پھینک دیتا ہو، اگر وہ نفع ونقصان کا شعور نہیں رکھتا تو وہ مجنون کے حکم میں ہے، اسے زکوٰۃ دینے سے ادا نہیں ہوگی۔ زکوٰۃ کی ادائیگی جب صحیح ہو گی جب اس کا والد یا کوئی ایسا رشتہ دار اس کی طرف سے مالِ زکوٰۃ پر قبضہ کرے جو اس کی کفالت کرتا ہو۔
’’في المغرب المعتوہ الناقص العقل … وفیہ التفصیل المارفي الصبی کما في التاترخانیۃ، وفي عامۃ کتب الأصول أن حکمہ کا لصبی العاقل في کل الأحکام۔‘‘ (شامیۃ:۲/۲۵۸)
زیر کفالت یتیم یا مسکین رشتہ دارکو زکوٰۃ دینا:
جس شخص کی کفالت میں کوئی یتیم یا ایسا رشتہ دار ہو جس کا نفقہ اس شخص پر لازم ہواور وہ اس شخص کے اصول وفروع میں سے نہ ہو تو اس یتیم وغیرہ کو زکوٰۃ دینے سے اس شرط کے ساتھ زکوٰۃ اداء ہو تی ہے کہ اسے خاص زکوٰۃ ہی کی نیت سے دے اور باقاعدہ مالک بنائے،اگر زکوۃ کی نیت سے نہ دے یا اسے مالک نہ بنائے، بلکہ اس رقم سے اپنے ساتھ کھانا کھلائے تو زکوٰۃ اداء نہ ہو گی۔
في الشامیۃ: ’’ وھذا (أی عدم جواز الدفع إلی من تلزمہ نفقتہ) إذا کان یحتسب المؤدی إلیہ من النفقۃ، أما إذا احتسبہ عن الزکاۃ فیجزیہ کما في البحر عن الوالجیۃ ومثلہ في التاتارخانیہ عن العیون۔‘‘ (شامیۃ: ۲/۲۵۷)
کرایہ کے گھر میں بسانے سے زکوٰۃ اداء نہیں ہوتی:
کسی مستحق زکوٰۃ کو مالِ زکوٰۃ کا مالک بنانے کی بجائے اسے کرایہ کے مکان میں رہائش دی جائے اور اس سے کرایہ نہ لیا جائے تو اس سے زکوٰۃ ادا ء نہیں ہوتی، بلکہ مال کا مالک بنانا ضروری ہے،ہاں اگر اس سے کرایہ لے کر دوبارہ اسے زکوۃ میں دے توزکوٰۃ اداء ہو جائے گی۔
في الدر: ’’ فلو أسکن فقیرا دارہ سنۃ ناویا لا یجزیہ۔‘‘
وفي الحاشیۃ: ’’ عزاہ في البحر إلی الکشف الکبیر وقال قبلہ: والمال کما صرح بہ أھل الأصول ما یتمول ویدخرللحاجۃ، وھو خاص بالأعیان فخرج بہ تملیک المنافع۔‘‘ (ردالمحتار: ۲/۲۵۷)
مفتی محمد
رئیس دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی