85376 | خرید و فروخت کے احکام | بیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان |
سوال
ہمارے علاقے میں ایک کاروبار رائج ہے، کہ ایک بندہ( بیچنے والا) اپنی بکری یا بھیڑ کسی دوسرے شخص (خریدار)کو اس شرط پر بیچتا ہے کہ بکری بیچنے والے کے پاس رہےگی اور خریدار قیمت ادا کرے گا، قیمت ادا کرنے کے بعد بکری ان دونوں میں نصف نصف ہوگی۔ بعد میں اس قیمت کے بدلے خریدار کو اسی بکری کے بطن(بچہ پیدا ہوکر جب بڑا ہوجائے تو اسے بیچ کر) سے پیسے ملیں گے ۔خریدار کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ یہ شرکت آگے باقی رکھے یا بکری کی آدھی قیمت بیچنے والے کو دے کر بکری خود رکھے یا آدھی قیمت بیچنے والے سے وصول کر کے بکری اسکے حوالے کر دے۔ نیز کہ اگر قیمت ادا کرنے سے پہلے بکری ہلاک ہو جائے تو خرید ار کو یہ اختیار بھی ہوگا کہ بیچنے والے سے قیمت وصول کرے یا معاف کر ے ،کیا بیع و شراء کی یہ صورت جائز ہے؟
تنقیح:سائل نے بتایا کہ جب کسی کو پیسوں کی ضرورت ہو تو وہ اس طرح کا معاملہ کرتا ہے کہ بکری بیچنے کے بعد اسےاپنے پاس رکھتاہے اور قیمت بھی لے لیتا ہےاور بکری کےنصف نصف حصہ میں دونوں شریک ہوجاتے ہیں، بعد میں بکر ی کا بچہ پیدا ہوکر جب بڑا ہوجائے تو اسے بیچ کر وہ پیسے خریدار کو دے دیتا ہے ۔اس سے خریدار کوبکر ی میں آدھا حصہ اور اپنے پیسے دونوں ملتے ہیں ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ بالا طرز پر عقد کرنا کئی وجوہ کی بناء پر شرعا فاسدہے ۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ عقد کرنے کے بعد بکری خریدار کی ملکیت میں آجاتی ہے اور بیچنے والے کا اپنے پاس رکھنے کی شرط لگانا شرطِ فاسد ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ حقیقت میں یہ قرض پر نفع لینے کے مترادف ہے جوکہ حرام ہے،کیونکہ خریدار کامقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کو بکر ی میں آدھا حصہ اور اپنے پیسے دونوں مل جائیں ۔تیسری وجہ یہ ہے کہ خریدار کو قبضہ دئیے بغیر مالک سمجھاجاتاہے اور بکری کا قبضہ و ضمان اٹھائے بغیر آگے نفع کماتاہے ۔چوتھی وجہ یہ ہے کہ بیچنے والا بیچنے کے بعد بھی بکری کی قیمت کا ضامن رہتاہے،لہذا یہ معاملہ شرعاً جائز نہیں ۔جس کا حکم یہ ہے کہ اس عقد کو ختم کرنا دونوں پر واجب ہے ،بکری کا مالک اپنی بکری واپس لے کر خریدار کو اس کی دی ہوئی قیمت واپس کردے ۔اگر بکری نے اصل مالک کے ہاں بچے دئیے تو بچے اور بکر ی دونوں اصل مالک کے ہوں گے خریدار کا اس میں حصہ نہیں ہے۔
جائزمتبادل صورت یہ ہےکہ خریدارپہلےمالک سےآدھی بکری خرید کرایک دن کے لئے اپنے قبضہ میں بھی لے لے،پھر باہم رضامندی سے آدھی بکری خریدنے والا پالنے کے لئے بکری کو اس کے حوالے کرے ، اس طرح شرکت ِ ملک قائم ہوجائے گی اور اصولاً بکری اور اس کے منافع ( بچے ، دودھ وغیرہ ) ان دونوں کے درمیان مشترک ہوں گے۔تاہم یہ جائز ہوگا کہ وہ باہمی رضامندی سے آپس میں یہ بات طے کرلیں کہ دودھ اور منافع سارے بکری کی دیکھ بھال کرنے والا استعمال کرے گا اور اس کے بدلے مالک سے اس کے حصے کے چارے اور دیکھ بھال کرنے کی محنت کی اجرت کا مطالبہ نہیں کرے گا۔
اس طریقہ سے شرکت کا معاملہ درست ہوجائے گا اور دونوں کے لئے بعد میں حاصل ہونے والا نفع بھی حلال ہوگا۔
حوالہ جات
مصنف ابن أبي شيبة (4/ 327):
20690 - حدثنا أبو بكر قال: حدثنا حفص، عن أشعث، عن الحكم، عن إبراهيم، قال: «كل قرض جر منفعة، فهو ربا».
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 84):
(و) لا (بيع بشرط) عطف على إلى النيروز يعني الأصل الجامع في فساد العقد بسبب شرط.
(لا يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع لأحدهما أو) فيه نفع (لمبيع) هو (من أهل الاستحقاق) للنفع بأن يكون آدميا، فلو لم يكن كشرط أن لا يركب الدابة المبيعة لم يكن مفسدا كما سيجيء (ولم يجر العرف به و) لم (يرد الشرع بجوازه) أما لو جرى العرف به كبيع نعل مع شرط تشريكه، أو ورد الشرع به كخيار شرط فلا فساد (كشرط أن يقطعه) البائع (ويخيطه قباء) مثال لما لا يقتضيه العقد وفيه نفع للمشتري (أو يستخدمه) مثال لما فيه نفع للبائع.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 88):
(وإذا قبض المشتري المبيع برضا) عبر ابن الكمال بإذن (بائعه صريحا أو دلالة) بأن قبضه في مجلس العقد بحضرته (في البيع الفاسد) وبه خرج الباطل وتقدم مع حكمه وحينئذ فلا حاجة لقول الهداية والعناية: وكل من عوضيه مال كما أفاده ابن الكمال، لكن أجاب سعدي بأنه لما كان الفاسد يعم الباطل مجازا كما مر حقق إخراجه بذلك فتنبه.
(ولم ينهه) البائع عنه ولم يكن فيه خيار شرط (ملكه) إلا في ثلاث في بيع الهازل وفي شراء الأب من ماله لطفله أو بيعه له كذلك فاسدا لا يملكه حتى يستعمله والمقبوض في يد المشتري أمانة لا يملكه به. وإذا ملكه تثبت كل أحكام الملك إلا خمسة: لا يحل له أكله، ولا لبسه، ولا وطؤها، ولا أن يتزوجها منه البائع، ولا شفعة لجاره لو عقارا أشباه.
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 51):
"وإذا قبض المشتري المبيع في البيع الفاسد بأمر البائع وفي العقد عوضان كل واحد منهما مال ملك المبيع ولزمته قيمته...قال: "ولكل واحد من المتعاقدين فسخه" رفعا للفساد، وهذا قبل القبض ظاهر؛ لأنه لم يفد حكمه فيكون الفسخ امتناعا منه، وكذا بعد القبض إذا كان الفساد في صلب العقد لقوته، وإن كان الفساد بشرط زائد فلمن له الشرط ذلك دون من عليه لقوة العقد، إلا أنه لم تتحقق المراضاة في حق من له الشرط.
الموسوعة الفقهية الكويتية (9/ 102):
ومن الشروط الفاسدة التي تفسد العقد: كل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة للبائع أو للمشتري، وليس بملائم ولا مما جرى به التعامل بين الناس. نحو: إذا باع دارا على أن يسكنها البائع شهرا ثم يسلمها إليه، أو أرضا على أن يزرعها سنة، أو دابة على أن يركبها شهرا، أو ثوبا على أن يلبسه أسبوعا، فالبيع في كل هذه الصور فاسد؛ لأن زيادة المنفعة المشروطة في البيع تكون ربا، لأنها زيادة لا يقابلها عوض في عقد البيع، والبيع الذي فيه ربا فاسد. وكذا ما فيه شبهة الربا، فإنها مفسدة للبيع.
عبدالعلی
دارالافتا ء جامعۃالرشید،کراچی
08/ جمادی الاولیٰ /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالعلی بن عبدالمتین | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |