85357 | حج کے احکام ومسائل | احرام اور اس کے ممنوعات کا بیان |
سوال
مجھے اپنے شوہر ، بہن اور نند کے ساتھ 2016 میں عمرہ کے سفر کی توفیق ملی، تمام ارکان کی ادائیگی کے بعد قصر کے وقت میں نے اپنے بالوں کی ایک لٹھ تقریبا چار انچ کی کاٹ لی(نیچے سے سارے بالوں کے سرے نہیں کاٹے، بلکہ سائیڈ سے کچھ بالوں کی ایک ڈوری سی بنا کر کاٹ ڈالی) اور اسی طرح میری نند اور بہن نے کیا۔ اس سفر میں ہم نے تین عمرے ادا کیے۔ پھرتین سال کے عرصے کے بعد میں اپنے بھتیجے اور بیٹے کے ساتھ دوبارہ عمرہ پر گئی تو قصر کے وقت میرے بھتیجے نے مجھے بتایا کہ اس طرح قصر کرنے سے دم واجب ہوگیا تھا، اس بار اس نے میرے پورے بالوں کو دو حصوں میں کیا اور دونوں سائیڈ سے انگلی پر لپیٹ کر کاٹے، اب میرے سوالات یہ ہیں:
1. پہلے سفر میں کیا مجھ پر اس طرح بال کاٹنے سے دم پڑ گیا؟ اگر ہاں تو کتنے دم دینے ہوں گے؟ تین عمرےکیےتو تین یا ایک ہی؟
2. میں اگر دم نہ ادا کروں تو کیا گناہ گار رہوں گی؟ اگرچہ تو بہ بھی کر لی ہو، جبکہ میں مالی طور پر مستحکم ہوں اور ادا کر سکتی ہوں، مگر دل کو شیطان بہکا رہا ہے۔
3. کیا دم ہی دینا ہوگا یعنی جانور کی قربانی ہی کرنا ہوگی یا وہ رقم یہاں پاکستان میں کسی غریب کی مدد کے طور پر دی جا سکتی ہے؟
4. کیا جانور کی قربانی یہاں پاکستان میں کر سکتے ہیں اور گوشت رشتہ داروں میں یا غریبوں میں بانٹ سکتے ہیں؟
5. میری بہن نے بھی تین عمرے کیے،بہن بیوہ ہیں اور دم ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں تو کیا حکم ہے؟
6. میری نند نے دو عمرے کیے، اس کے بعد وہیں پر وفات پائی؟مرحومہ نند کے لیے کیا حکم ہے؟
7. میرے بھتیجے نے مجھے بتایا کہ اس طرح قصر کرنے کے بعد سے اب تک یعنی تین سال بعد تک میں اپنے شوہر پر حرام رہی اور پر فیوم بھی استعمال کیااور چہرہ ڈھانک کر بھی سوئی، میرے بھتیجے کے مطابق یہ سب لاعلمی میں گناہ ہوئے، اب ان اعمال کاکیا حکم ہے؟
8. میرے شوہر کے پوچھنے پر یہاں کے کچھ مولوی صاحبان نے کہا کہ جو ہو گیا سو ہو گیا، تین سال بعد عمرہ میں بال کاٹنے پرپچھلا معاملہ ختم ہو گیا، اب دم دینے کی ضرورت نہیں، مگر میرا بھتیجا بضد ہے کہ دم دینا لازمی ہے، تو کیا میرا بھتیجاصحیح کہہ رہا ہے؟
وضاحت: سائلہ نے بتایا کہ پہلے سفر میں عمرہ سے فراغت پر چوتھائی سر سے کم بال کاٹے تھے، تینوں عمروں کے بعد اسی طرح تھوڑے تھوڑے بال کاٹے تھے، البتہ تین سال بعد عمرہ کے سفر میں عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد چوتھائی سر کے بال کاٹے تھے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
- سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق جب آپ نے عمرہ کرنے کے بعد سر کے کچھ بال کاٹے تو شرعی اعتبار سے آپ احرام سے نہیں نکلیں، کیونکہ احرام سے نکلنے کے لیے کم از کم ایک پورے کے برابر چوتھائی سر کے بال کاٹنا ضروری ہے، لیکن چونکہ آپ نے احرام سے نکلنے کی نیت سے یہ بال کاٹے اور اس کے بعد اپنے آپ کو حلال یعنی غیرمحرم سمجھ کر حرم شریف میں رہنا شروع کیا تو دوسرے عمرے کا احرام باندھنے سے پہلے اگر آپ نےکسی جنایت کا ارتکاب نہیں کیا، جیسے خوشبو لگانا، سر کے علاوہ دیگر بال اور ناخن کاٹنا وغیرہ تو اس صورت میں دوسرے عمرے کا احرام باندھنے تک آپ پر کوئی دم لازم نہیں ہوا تھا، لیکن جب آپ نے دوسرے عمرے کا احرام باندھا تو احرام پر احرام باندھنے سے ایک دم لازم ہو گیا، کیونکہ دو احراموں کو جمع کرنے سے شرعا دم لازم ہو جاتا ہے، پھر دوسرے عمرے سے فارغ ہونے کے بعد تھوڑے سے بال کاٹنے سے آپ احرام سے نہیں نکلی، لہذا گزشتہ صورت کی طرح اگر آپ نے تیسرے عمرے کا احرام باندھنے تک کسی جنایت کا ارتکاب نہیں کیا تو آپ پر تیسرے عمرے کا احرام باندھنے تک دوسرا دم لازم نہیں ہوا تھا، لیکن جب آپ نے تیسرے عمرے کا احرام باندھا تو آپ پر دوبارہ احرام پر احرام باندھنے سے دوسرا دم لازم ہوگیا، پھر جب آپ نے تیسرے عمرے سے فارغ ہونے کے بعد چوتھائی سر سے کم بال کاٹے تو احرام نہیں کھلا، لہذا اس کے بعدبال کاٹنےتک آپ نے جتنی جنایات جیسے خوشبو لگانا، چہرے کو ڈھانپنا، ناخن کاٹنا اور شوہر کے قریب جانا وغیرہ کا ارتکاب کیا ان سب جنایات کی وجہ سے شرعا آپ پر ایک ہی دم واجب ہوا تھا، کیونکہ آپ نے اپنے آپ کو حلال یعنی غیر محرم سمجھ کر ان جنایات کا ارتکاب کیا تھااورایسی صورت میں فقہائے کرام رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ ایک ہی دم واجب ہو گا، البتہ سابقہ دو دم ملا کر مجموعی اعتبار سے تین دم واجب ہو گئے۔
مذکورہ بالا تفصیل اس وقت ہے جب پہلے اور دوسرے عمرے کے درمیان اور دوسرے اور تیسرے عمرے کے درمیان دم واجب کرنے والی جنایات کا ارتکاب نہ کیا گیا ہواور اگر ان عمروں کے درمیان جنایات کا ارتکاب کیا ہو تو ایسی صورت میں پہلے عمرے کے بعد جنایات کے ارتکاب کی وجہ سے ایکاور دوسرے عمرے کے بعد کی جنایات کی وجہ سے مزید ایک دم واجب ہو گا، اس طرح مجموعی اعتبار سے پانچ دم واجب ہوں گے۔لہذاان عمروں کے درمیان کی جانے والی جنایات کی تفصیل ذکر کرکے دارالافتاء سے دوبارہ سوال پوچھا جا سکتا ہے۔
پھر تین سال کے عرصہ کے درمیان اگر آپ کو کسی بھی وجہ سے ایک پورے کے برابر چوتھائی سر کے بال کاٹنے کی نوبت نہیں آئی تو اس صورت میں تین سال بعد دوبارہ عمرہ کا احرام باندھنے سے ایک اور دم واجب ہو گا، کیونکہ ابھی تک آپ احرام کی حالت میں تھیں، پھر تیسرے عمرے سے فارغ ہو کر جب آپ نے چوتھائی سر کے برابر بال کاٹ لیے تو اب آپ سب عمروں کے احرام سے نکل گئیں۔ البتہ اس طرح آپ پر کل چھ دم واجب ہوں گے۔
بدائع الصنائع (2 / 141، فصل مقدار واجب الحلق والتقصير، ط: سعید):
"وأما التقصير فالتقدير فيه بالأنملة لما روينا من حديث عمر - رضي الله عنه - لكن أصحابنا قالوا: يجب أن يزيد في التقصير على قدر الأنملة؛ لأن الواجب هذا القدر من أطراف جميع الشعر، وأطراف جميع الشعر لا يتساوى طولها عادة بل تتفاوت فلو قصر قدر الأنملة لا يصير مستوفيا قدر الأنملة من جميع الشعر بل من بعضه فوجب أن يزيد عليه حتى يستيقن باستيفاء قدر الواجب فيخرج عن العهدة بيقين".
مناسك ملا علي القاري مع حاشية إرشاد الساري(ص: 578) :
فصل: في ارتكاب المُحْرِمِ المَحْظُورَ) بالنصب، أي الممنوع فعله من المحرم حال كونه مُحرِماً على نية رفض الإحرام متعلق بالارتكاب كما يتبين من أصل الكتاب (اعلم أنه إذا نوى رَفْضَ الإحرام) أي قصد ترك الإحرام بمباشرة المحظور على وفق ظنه فجعل يصنع ما يصنعه الحلال من لبس الثياب) أي الممنوعة من المخيط ونحوه والتطيب والحلق
والجماع وقتل الصيد وأمثال ذلك (فإنه لا يخرج بذلك من الإحرام) أي بالإجماع (وعليه) : أي يجب أن يعود كماكان محرماً) أي ولا يرتكب بعد ذلك محظوراً ما . (ويجب دم واحد لجميع ما ارتكب ولو فعل كل المحظورات) أي استحساناً.
مناسك ملا علي القاري مع حاشية إرشاد الساري(ص: 414) :
ولو طاف وسعى للأولى ولم يبق عليه إلا الحلق فأهل بأخرى لزمته) أي العمرة الأخرى اتفاقاً ولا يرفضها ) أي الأخرى والأولى أن يقول : ولا يرفض شيئاً (وعليه دم الجمع، وإن حلق للأولى قبل الفراغ من الثانية لزمه دم آخر) أي للجناية على الثانية اتفاقاً ولو بعده) أي ولو حلق للأولى بعد الفراغ من الثانية (لا) أي لا يلزمه دم آخر.
مناسك ملا علي القاري مع حاشية إرشاد الساري(ص: 419) :
وكل من عليه الرفض أي رفض حجة أو عمرة يحتاج إلى نية الرفض أي ليرتفض إلا مَنْ جَمع بين الحجتين قبل فوات وقت الوقوف أو بين العمرتين قبل السعي للأولى، ففي هاتين الصورتين أي من الجمعين (ترفض إحداهمامن غير نية رفض، لكن إما بالسير إلى مكة أو الشروع في أعمال إحداهما.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2/ 553) دار الفكر-بيروت:
قال في اللباب: واعلم أن المحرم إذا نوى رفض الإحرام فجعل يصنع ما يصنعه الحلال من لبس الثياب والتطيب والحلق والجماع وقتل الصيد فإنه لا يخرج بذلك من الإحرام، وعليه أن يعود كما كان محرما، ويجب دم واحد لجميع ما ارتكب ولو كل المحظورات، وإنما يتعدد الجزاء بتعدد الجنايات إذا لم ينو الرفض، ثم نية الرفض إنما تعتبر ممن زعم أنه خرج منه بهذا القصد لجهله مسألة عدم الخروج، وأما من علم أنه لا يخرج منه بهذا القصد فإنها لا تعتبر منه. اهـ.
البحر الرائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 17) دار الكتاب الإسلامي:
قال في اللباب اعلم أن المحرم إذا نوى رفض الإحرام فجعل يصنع ما يصنعه الحلال من لبس الثياب والتطيب والحلق والجماع، وقتل الصيد فإنه لا يخرج بذلك من الإحرام، وعليه أن يعود كما كان محرما ويجب دم واحد لجميع ما ارتكب، ولو كل المحظورات، وإنما يتعدد الجزاء بتعدد الجنايات إذا لم ينو الرفض ثم نية الرفض إنما تعتبر ممن زعم أنه خرج منه بهذا القصد لجهله مسألة عدم الخروج، وأما من علم أنه لا يخرج منه بهذا القصد فإنها لا تعتبر منه. اهـ. قال شارحه، وكذا ينبغي أن لا يعتبر منه إذا كان شاكا في المسألة أو ناسيا لها.
مناسك ملا علي القاري مع حاشية إرشاد الساري(ص: 413) :
(وأما الجمع أفعالاً فهو أن يُحرم بالثاني بعد فوات وقت الوقوف، فلو أحرم يحج ووقف بعرفة، ثم أحرم بحج آخر يوم النحر، فإن كان أي إحرامه بالثاني (بعد الحلق للأول) أي لحجه الأول لزمه الثاني) أي عند الكل ولا شيء عليه لا دم) أي لجناية الجمع ولا رفض) أي ولا يرفض شيئاً بل يمضي في الأول (ويبقى محرماً) أي بالثاني (إلى قابل) أي فيؤذي الثاني حينئذ وإن كان) أي إحرامه بالثاني قبل الحلق لزمه) أي الحج أيضاً.
وعليه دم الجمع) أي اتفاقاً بين الإمام وصاحبيه ويمضي في الأول).
(وهو) أي دم الجمع (دم) جبر، ويلزمه دم آخر أي اتفاقاً (سواء حلق للأول بعد الإحرام للثاني) أي للجناية عليه وهذا واضح (أو لا) أي أو لم يحلق حتى حج من العام الثاني، فعليه دم عند أبي حنيفة لتأخير الحلق، وعندهما لا شيء عليه (ولو خلق بعد أيام النحر فعليه دم ثالث أي عند أبي حنيفة لتأخير الحلق خلافاً لهما .
2.مذکورہ صورت میں دم کی ادائیگی شرعاً واجب ہے، جس کے نہ ادا کرنے کی صورت میں آپ گناہ گار ہوں گی، خصوصا جبکہ آپ کے اندر دم ادا کرنے کی استطاعت بھی موجود ہے، جہاں تک توبہ کا تعلق ہے تو توبہ کی شرائط میں سے یہ بھی ایک شرط ہے کہ اگر کوئی چیز واجب فی الذمہ ہو تو اس کی ادائیگی کیے بغیر توبہ قبول نہیں ہوتی، جیسے کوئی شخص نماز چھوڑ دے اور پھرنماز قضاء کیے بغیر محض زبانی توبہ کرتا رہے تو شرعاً توبہ کے لیے یہ کافی نہیں، بلکہ وہ فوت شدہ نماز قضاء کرے گا تو اس کی توبہ قبول ہو گی، ورنہ نہیں۔اسی طرح صورتِ مسئولہ میں بھی دم دیے بغیر توبہ معتبر نہیں۔
3. مذکورہ صورت میں جب آپ کے اندر دم دینے کی استطاعت موجود ہے تو دم ہی ادا کرنا ضروری ہے، کیونکہ دم کی استطاعت ہونے کی صورت میں اس کے متبادل کے طور پر کوئی اور چیز نہیں دی جا سکتی، لہذادم کی بجائے روزے رکھنا یا فقراء کے درمیان اتنی رقم تقسیم کرنا کافی نہیں۔ البتہ دم کے لیے ایک بڑاجانورجیسے گائے اور بیل وغیرہ بھی ذبح کیا جا سکتا ہے، جس سے چھ دم یکبارگی ادا ہو جائیں گےاورآپ برئ الذمہ ہو جائیں گی۔
البحر الرائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 9) دار الكتاب الإسلامي،بيروت:
ومن الغريب ما في فتاوى الظهيرية هنا فإن لبس ما لا يحل له لبسه من غير ضرورة أراق لذلك دما فإن لم يجد صام ثلاثة أيام. اهـ. فإن الصوم لا مدخل له في وجوب الجناية بل يكون الدم في ذمته إلى الميسرة، وإنما يدخل الصوم فيما إذا فعل شيئا للعذر كما سيأتي.
رد المحتار(كتاب الحج،باب التمتع، 557/2، ط: ايچ، ايم، سعيد):
"وعدم القدرة على الكفارة فليست بأعذار في حق التخيير ولو ارتكب المحظور بغير عذر فواجبه الدم عينا أو الصدقة فلا يجوز عن الدم طعام ولا صيام، ولا عن الصدقة صيام؛ فإن تعذر عليه ذلك بقي في ذمته. اھـ. وما في الظهيرية من أنه إن عجز عن الدم صام ثلاثة أيام ضعيف
كما في البحر."
4. دم کا شرعی حکم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی حدودِ حرم میں ہی کرنا ضروری ہے، حدود حرم سے باہر دیے گئے دم کا اعتبار نہیں، لہذا مذکورہ صورت میں پاکستان میں یہ دم نہیں دیا جا سکتے۔
فتح القدير للكمال ابن الهمام (3/ 78) دار الفكر،بيروت:
(والهدي لا يذبح إلا بمكة) لقوله تعالى {هديا بالغ الكعبة} [المائدة: 95] (ويجوز الإطعام في غيرها) خلافا للشافعي -رحمه الله -. هو يعتبره بالهدي والجامع التوسعة على سكان الحرم، ونحن نقول: الهدي قربة غير معقولة فيختص بمكان أو زمان. أما الصدقة قربة معقولة في كل زمان ومكان.
(قوله: ونحن نقول إلخ) وذلك أنه لما عين الهدي أحد الواجبات علم أنه ليس المراد مجرد التصدق باللحم وإلا لحصل التصدق بالقيمة أو بلحم يشتريه، بل المراد التقرب بالإراقة مع التصدق بلحم القربان، وهو تبع متمم لمقصوده فلا ينعدم الإجزاء بفواته عن ضرورة، فلذا لو سرق بعد الإراقة أجزأه، بخلاف ما لو سرق قبلها أو ذبح بالكوفة فسرق لا يجزيه؛ لأن القربة هناك لا تحصل إلا بالتصدق لاختصاص قربة الإراقة بمكان مخصوص أعني الحرم."
رد المحتار (كتاب الحج، باب الجنايات، ج:2، ص:554، ط: سعيد):
"(أو حلق في حل بحج) في أيام النحر، فلو بعدها فدمان (أو عمرة) لاختصاص الحلق بالحرم.
(قوله: أو حلق في حل بحج أو عمرة) أي يجب دم لو حلق للحج أو العمرة في الحل؛ لتوقته بالمكان، وهذا عندهما، خلافاً للثاني، (قوله: في أيام النحر) متعلق بحلق بقيد كونه للحج، ولذا قدمه على قوله أو عمرة، فيتقيد حلق الحاج بالزمان أيضاً، وخالف فيه محمد، وخالف أبو يوسف فيهما، وهذا الخلاف في التضمين بالدم لا في التحلل؛ فإنه يحصل بالحلق في أي زمان أو مكان، فتح. وأما حلق العمرة فلا يتوقت بالزمان إجماعاً، هداية. وكلام الدرر يوهم أن قوله: في أيام النحر قيد للحج والعمرة، وعزاه إلى الزيلعي، مع أنه لا إيهام في كلام الزيلعي كما يعلم بمراجعته، (قوله: فدمان) دم للمكان ودم للزمان، ط، (قوله: لاختصاص الحلق) أي لهما بالحرم وللحج في أيام النحر."
5. آپ کی بہن پر وجوبِ دم کے بارے میں بھی وہی تفصیل ہے جو سوال نمبر1 کے جواب میں گزری، البتہ اگر انہوں نے ابھی تک چوتھائی سر کے بال نہیں کاٹے تو وہ ابھی تک حالت احرام میں ہیں، جس سے نکلنے کی صورت یہ ہے کہ وہ فوراً حدودِ حرم میں جا کر چوتھائی سر کے برابر بال کاٹ لیں، یہ بال بھی حدودِ حرم میں ہی کاٹنا ضروری ہے، حدودِ حرم سے باہر کاٹنا جائز نہیں،ورنہ مزید تین دم واجب ہو جائیں گے، البتہ اگر ان كے اندر حرم شریف جانے کی استطاعت نہیں ہے تو اس صورت میں پاکستان میں بال کاٹ دیں اور پھر مزید تین دم ادا کرنے ہوں گے، کیونکہ انہوں نے عمرہ کے سفر میں تین مرتبہ احرام باندھا تھا۔
باقی اگرمعاشی تنگی کے باعث اس کے اندر دم اد اکرنے کی استطاعت نہیں ہے تو اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ کوئی مالدار آدمی اس کو زکوة اور صدقاتِ واجبہ جیسے عشر وغیرہ مالک بنا کر دے دے، تاکہ وہ اس سے دم ادا کر دیں، لیکن اگر کوئی ایسا شخص نہ ملے اوران کے لیے اپنے ذاتی مال سے اتنے دم دینا مشکل ہے توایسی مجبوری کی صورت میں ان کے لیے شافعیہ کے مسلک پر عمل کرنے کی گنجائش ہے اور فقہائے شافعیہ رحمہم اللہ کے نزدیک عمرہ کے افعال سے فارغ ہونے کے بعد احرام سے نکلنے کے لیےسر کے چند بالوں کا کاٹنا بھی کافی ہے۔
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (3/ 2269) دار الفكر - سوريَّة – دمشق:
وأوجب الحنفية ما يزيد على قدر الأنملة، حتى يحقق التقصير من جميع الشعر، ويتيقن من استيفاء قدر الواجب، فيخرج عن العهدة بيقين.
وقال الشافعية: أقل إزالة شعر الرأس أو التقصير: ثلاث شعرات، لقوله تعالى: {محلقين رؤوسكم} [الفتح:27/ 48] أي شعر رؤوسكم؛ لأن الرأس لا يحلق، والشعر جمع، وأقله ثلاث، أو أن يقدر لفظ الشعر منكرا فيكتفى في الوجوب بمسمى الجمع. ولو لم يكن هناك إلا شعرة وجب إزالتها.
الحاوي الكبير (4/ 114) دار الكتب العلمية، بيروت:
والدلالة على وجوب الدم بحلق ثلاثة شعرات. قوله تعالى: {فمن كان منكم مريضا أو به أذى من رأسه ففدية من صيام) {البقرة: 196) تقديره فحلق شعر رأسه، ففدية؛ لأن الرأس لا يحلق، وإنما يحلق الشعر فإذا حلق من رأسه ما ينطلق عليه اسم جمع مطلق، كان حالقا لرأسه وثلاث شعرات ينطلق عليها اسم الجمع؛ فوجب أن يتعلق به وجوب الدم والدلالة على أن التحلل يقع بحلق ثلاث شعرات، أو بقصرها.
البيان في مذهب الإمام الشافعي (4/ 340) دار المنهاج – جدة:
والمستحب: أن يحلق جميع شعر رأسه، كما فعل النبي ـ - صلى الله عليه وسلم - ـ. وإن أراد التقصير.. فالمستحب: أن يقصر من جميع شعر رأسه كالحلق، وإن اقتصر على حلق ثلاث شعرات أو تقصيرها. أجزأه، ولا فرق بين أن يقصر من الشعر الذي يحاذي الرأس أو من الشعر الذي نزل عن حد الرأس.. فإنه يجزئه.
المجموع شرح المهذب (8/ 214) دار الفكر،بيروت:
قد ذكرنا أن الواجب من الحلق أو التقصير عندنا ثلاث شعرات وبه قال أبو ثور.
6. آپ کی نند کا حکم بھی آپ کی طرح ہی ہے کہ اگر انہوں نے دونوں عمروں کے درمیان جنایات کا ارتکاب کیا ہو تو ان سب جنایات کی وجہ سے ان پر ایک دم واجب ہو گا، اس کے بعد جب انہوں نے دوسرے عمرے کا احرام باندھا تو دوسرا دم واجب ہو گیا، پھر اگر جنایات کا ارتکاب کرنے سے پہلے ان کی وفات ہو گئی ہو تو ان پر مزید کوئی دم واجب نہیں ہوا، باقی فوت ہونے کے بعد ان دموں کی ادائیگی کا حکم یہ ہے کہ اگر انہوں نے اپنا مال چھوڑا ہے اور دم دینے کی وصیت بھی کی ہے تو اس صورت میں ان کی وصیت پر عمل کرنا واجب ہو گا اور ان کے مال سے حدودِ حرم میں یہ دم دیے جائیں گے اور اگر انہوں نے دم دینے کی وصیت نہیں کی یا انہوں نے ترکہ میں اتنا مال نہیں چھوڑا تو اس صورت میں ورثاء کے ذمہ ان دموں کی ادائیگی لازم نہیں، البتہ اگر کوئی وارث اپنی طرف سے بطور تبرع ادا کر دے تو اس پر اس کو بہت بڑا اجروثواب ملے گا اور مرحومہ کے ساتھ بھی ان شاء اللہ تعالیٰ آخرت میں نرمی کا معاملہ كیا جائے گا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2/ 72) دار الفكر-بيروت:
(قوله يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك إمداد.
ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعا لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات إنه يجزيه إن شاء الله تعالى.
7،8.مذکورہ صورت میں اب تک آپ نے احرام کی حالت میں ممنوعاتِ احرام کا ارتکاب کیا وہ چونکہ شرعی مسئلہ سے لاعلمی اور ناواقفیت کی وجہ سے ہوا اس لیے ان کاموں کے ارتکاب پر اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ واستغفار کرنااور سوال نمبر1 میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق دم دینا ضروریہے، دم کے علاوہ کوئی اور کفارہ وغیرہ واجب نہیں۔ دم دینے اور توبہ واستغفار کرنے سے یہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔
باقی آپ کا بھتیجا درست کہہ رہا ہے، سوال نمبر1کے جواب میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق آپ پر دم کی ادائیگی لازم ہے، باقی تین سال بعد چوتھائی سر کے بال کاٹنے سے گزشتہ سب احراموں سے نکلنے والی بات درست ہے، لیکن یہ بات درست نہیں کہ پہلے تین عمروں کے بعد احرام کھولنے سے پہلے جنایات کے ارتکاب پر کچھ بھی لازم نہیں۔
حوالہ جات
الدر المختار (2/ 587) (2/ 587) دار الفكر-بيروت :
( ومن أتى بعمرة إلا الحلق فأحرم بأخرى ذبح ) الأصل أن الجمع بين إحرامين لعمرتين مكروه تحريما فيلزم الدم.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2/ 587) دار الفكر-بيروت :
(قوله فيلزم الدم) أي لجناية الجمع ولا دم لتأخير الحلق هنا لأنه في العمرة غير موقت بالزمان كما مر إلا إذا حلق قبل الفراغ من الثانية فيلزم دم آخر كما علمته آنفا (قوله لا لحجتين) عطف على العمرتين؛ وقوله فلا يلزم أي دم الجمع، بل يلزم دم التأخير أو التقصير فقط كما مر وقد تبع الشارح في ذلك صاحب البحر حيث قال: وصرح في الهداية بأنه أي الجمع بين إحرامي حجين أو عمرتين بدعة، وأفرط في غاية البيان بقوله إنه حرام لأنه بدعة وهو سهو، لما في المحيط والجمع بين إحرامي الحج لا يكره في ظاهر الرواية لأنه في العمرة إنما كره لأنه يصير جامعا بينهما في الفعل لأنه يؤديهما في سنة واحدة، بخلاف الحج اهـ فلذا فرق المصنف بين الحج والعمرة تبعا للجامع الصغير فإنه أوجب دما واحدا للحج. وقال بعض المشايخ: يجب دم آخر للجمع اتباعا لرواية الأصل وقد علمت أن الفرق بينهما ظاهر الرواية، هذا خلاصة ما في البحر.
مناسك ملا علي القاري مع حاشية إرشاد الساري(ص: 419) :
وكل من لزمه الرفض أي للجمع بين الإحرامين فلم يرفض أي أحدهما فعليه دم الجمع) ثم عدم الرفض إنما يتصوّر إذا جمع بين حجة وعمرة أو بين الحجتين بعد الوقوف أو بين العمرتين بعد السعي لإحداهما، وهذا معنى قوله : (وكل من عليه الرفض أي رفض حجة أو عمرة يحتاج إلى نية الرفض أي ليرتفض.
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
9/جمادی الاولی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |