03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک شریک کا دوسرے شریک کے حصہ کی رقم پر قبضہ کرنا
85413شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

دو دوستوں محمد ایوب اور محمد ارشاد نے مشترکہ کاروبار شروع کیا تھا، جو تقریباً بیس بائیس سال تک چلتا رہا، محمد ایوب کی رقم چار لاکھ تیس ہزار اور محمد ارشاد کی رقم چار لاکھ پینسٹھ ہزار روپے تھی، اس کاروبار سے حاصل شدہ نفع دونوں کے درمیان نصف نصف طے ہوا، کام بھی دونوں فریق کرتے تھے، اس کاروبار سے حاصل شدہ آمدن سے خریدی گئی پراپرٹی دونوں کے درمیان مشترکہ نام کروائی جاتی رہی، دونوں کے گھروں کا خرچ بھی اسی کاروبار سے چلتا تھا، اب دونوں فریق علیحدہ ہوئے اورشرکت ختم کی توپراپرٹی وغیرہ  ہر چیز نصف نصف کے حساب سے تقسیم کی گئی، البتہ محمد ارشاد نے ایک کروڑ آٹھ لاکھ روپے اضافی لیے ہیں اور وہ دوسرے فریق یعنی محمد ایوب کو راس المال دینے سے بھی انکاری ہے، حالانکہ دوسرے فریق کے پاس تمام معاملات کے گواہ بھی موجود ہیں، خریدی گئی پراپرٹی دونوں کے نام مشترکہ طور پر رجسٹریشن کروانے کے کاغذات بھی موجود ہیں، اب سوالات یہ ہیں:

 1۔کیا محمد ایوب اپنے راس المال کا مطالبہ کر سکتا ہے؟

 2۔محمد ارشاد نے جو اضافی رقم لی ہے شرعی اعتبار سے اس کی وصولی کا کیا طریقہ ہے؟

 وضاحت: سائل کے بقول شرکت ختم کرنے کے بعد ہم نے پراپرٹی وغیرہ نفع سمجھ کر برابر تقسیم کی ہے، راس المال لینے کی صراحت نہیں کی گئی تھی۔   

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1،2۔سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق اگر واقعتاً فریقین کے درمیان نفع کا تناسب نصف نصف طے تھا اور کاروبار میں کام بھی دونوں فریق کرتے تھے تو اس صورت میں ایک فریق کا مشترکہ کاروبار سے حاصل شدہ نفع میں سے  رقم کی ایک بڑی مقدار اپنے پاس رکھ لینا ہرگز جائز نہیں، لہذا محمد ارشاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک کروڑ آٹھ لاکھ روپے میں سے آدھی رقم محمد ایوب کو ادا کرے، ورنہ وہ سخت گناہ گار ہو گا، کیونکہ کسی مسلمان کا مال اس کی رضامندی کے بغیر استعمال کرنا شرعا بالکل جائز نہیں۔

  جہاں تک راس المال کا تعلق ہے تو شرکت کا اصول یہ ہے کہ چلتےہوئےکاروبار سے لیا گیا نفع تحت الحساب ہوتا ہے اور پھر شرکت کے اختتام پر سب سے پہلے حاصل شدہ نفع سے راس المال کو پورا کیا جاتا ہے، اس کے بعد بچ جانے والی رقم کوبطورِ نفع شرکاء کے درمیان طے شدہ تناسب سے تقسیم کیا جاتا ہے اور سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق فریقین نے مذکورہ کاروبار سے خریدی گئی پراپرٹیاں، مثلا دوکان، مکان اور زمینیں شرکت کے اختتام پربرابرتقسیم کی ہیں اور سائل کے بقول وہ ہم نے نفع سمجھ کر تقسیم کی ہیں،  اس لیےمحمد ایوب کے پاس جو رقم موجود ہے اس میں سے فریقین پہلے اپنا اپنا راس المال یعنی سرمایہ اٹھا لیں اور پھر بقیہ رقم دونوں فریق آپس میں طے  شدہ تناسب سے برابرتقسیم کر لیں، کیونکہ وہ  رقم درحقیقت کاروبار کا نفع اور پرافٹ ہے۔

حوالہ جات

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 59) دار الكتب العلمية،بيروت:

[فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة] وأما بيان شرائط جواز هذه الأنواع فلجوازها شرائط: بعضها يعم الأنواع كلها: وبعضها يخص البعض دون البعض........

 (ومنها) : أن يكون الربح معلوم القدر، فإن كان مجهولا تفسد الشركة؛ لأن الربح هو المعقود عليه، وجهالته توجب فساد العقد كما في البيع والإجارة.

(ومنها) : أن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة، لا معينا، فإن عينا عشرة، أو مائة، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لا يحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلا يتحقق الشركة في الربح.

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 458)للعلامة علي حيدر:

(فيحسب من الربح) أنه يشمل الربح سواء كان موجودا أو جرى تقسيمه والأصل أن تقسيم الربح قبل قبض رب المال رأس ماله موقوف إن قبض رأس المال صحت القسمة وإن لم يقبض بطلت (تكملة رد المحتار) وذلك لو بقيت المضاربة بعد تقسيم الربح وتلف مؤخرا كل رأس المال أو بعضه فيرد الربح المأخوذ ويعاد إلى رأس المال ويكمل رأس مال رب المال وإذا زاد شيء عن ذلك فيأخذ رب المال والمضارب على الوجه المشروط وإذا نقص رأس المال فلايضمنه المضارب.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

10/جمادی الاولیٰ 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب